• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک تصویر ایک کہانی ’I Am Lord Mount Batten‘ ۔۔۔۔پانچویں کہانی/ شفیق زادہ

ایک تصویر ایک کہانی ’I Am Lord Mount Batten‘ ۔۔۔۔پانچویں کہانی/ شفیق زادہ

اس کی دیوانگی سے سب ہی پریشان تھے۔ جب اس پر جنون سوار ہوتا تو بڑے سے بڑا سورما بھی اسے روکنے کی ہمت خود میں  نہ پاتا۔ وہ جو چاہتا کرتا تھا، کبھی سب بند تو کبھی سب کو ہی بند کر دیا کرتا۔ اس کا جثہ ہی اس کے ہیبت و جلال کے لیے کافی تھا اور پھر طاقت ایسی کہ  جس نرس کو دبوچ لے تو جب تک بیہوشی کا انتہائی تگڑا انجکشن نہ لگایا جائے ، مجال ہے کہ کوئی مائی کا لال بیچارے کو پھڑپھڑاتی نرس سے الگ کر سکے ۔ کھانے کے اوقات میں جب تک وہ مطبخ میں آ کر بڑی بڑی دیگوں کا ڈھکنا اُٹھا کر پکوان سونگھ کر کلئیر نہ کرتا، کسی بھی باورچی کو ہمت نہ ہوتی کہ اس کھانے کو تقسیم کے لیے ہال میں بھیج سکے۔ وہ اکثرکھانے کے اوقات میں ہی اپنا دربار لگاتا اور پاگلوں سے متعلق اوندھے سیدھے فیصلے صادر کرتا۔ پاگل خانے کے پاگلوں کا اس پر اعتماد و یقین غیر معمولی طور پر حیران کن تھا۔ سب ہی اس سے عاجز تھے مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے  ۔ اس بے بسی کی تین وجوہات تھیں ، اوّل یہ کہ سارے ہی پاگل اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے، دوم یہ کہ پاگل خانے کی  باہر کی دنیا کی اسے بھرپور حمایت حاصل تھی، اور سوم یہ کہ حکومت کی جانب سے متعین کردہ ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم اس کی ذہنی اُپچ پر ریسرچ کرنے کے لیے اس کا مطالعہ کر رہی تھی۔ حکومت کی جانب سے پاگل خانے کی انتظامیہ کو واضح ہدایات تھیں کہ جب تک یہ تیسرا کام مکمل نہیں ہوتا ’ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ‘ کو، (جی ہاں، وہ خود کو لارڈ ہی سمجھتا اور اسی نام سے ہی  مخاطب کروانا  پسند کرتا تھا) چہیتا ہی سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں :ایک تصویر ایک کہانی۔۔۔شفیق زادہ/چوتھی کہانی۔۔ بھگوڑا جنرل

پھر ایک دن ایک اور دیوانےنے پاگل خانے میں قدم رنجہ فرمایا۔ نیا نویلا دیکھنےمیں دبلاپتلا، منحنی سا کہ پھونک مارو تو ٹیک آف کر جائے۔ قد و قامت میں ایسا کہ جو بھی چاہے جیب میں ’ چی واہ وا ‘ کتے کی طرح ڈال کر خراماں خراماں چہل قدمی کرے۔ مطیع و فرماں بردار ایسا کہ پاگل خانے کی انتظامیہ بلا تفریق جنس و عہدے کے  ،اس کی فرحت بخش خدمات سے استفادہ کر رہی تھی۔ طویل عرصہ کے بعد پاگل خانے میں بہار آئی تھی اور آنے والے دنوں کے خواب سہانے بھی تھے اور دلفریب بھی۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ اس ماحول کو حاسدوں کی نظر لگ گئی ۔ ایک دن کھانے کے دوران جھگڑا ہو گیا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نئے نویلے کے درمیان ہوئی ہاتھا پائی میں ایک کے حمائتی اور دوسرے کے عاشق کود گئے، خوب سر پھٹّول ہوا، بات انتظامیہ تک جاپہنچی ۔
پتہ چلا کہ بنِائے جھگڑا کچھ اور نہیں بلکہ یہ کہ نو وارد بھی خود کو ’ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ‘ کہتا ،سمجھتا اور منوانا چاہتا ہے اور اُن ساری مراعات و فوائد کا طلبگار ہے جو بقول نئے نویلے، جعلی لارڈ ماؤنٹ بیٹن  کو غلط طور سے دیا جارہا تھا۔ انتظامیہ کے لیے یہ ’ کیچ 22 ‘ والی صورتحال تھی ، یعنی نہ دے کے بچ سکتے تھے نہ لے کے بچ سکتے تھے۔ ایک طرف حکومتی دباؤ موجودہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے لیے تو دوسری طرف نظر نہ آنے والی ’ پچھواڑہ بجاؤ ‘ طاقتوں کی جانب سےاخلاقی دباؤ نئے نویلے کا مرتبہ بلند کرنے کے لیے ۔ بیچاری انتظامیہ کے لیے تو دو ہری مصیبت ہو گئی تھی ’ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ‘ کہ کچھ سجھائی  نہ دیتا تھا کہ کیا کیِا جائے ۔ ایک کی حمایت کرتے ہیں تو جان جاتی ہے دوسرے کی حمایت میں مزے، بچانی بھی ہے اور بجانی بھی ہے، ایک طرف جان دوسری طرف چین کی بانسری ، کریں تو کیا کریں۔

ہر دوسرے تیسرے روز کسی نہ کسی بہانے پاگل خانے میں گھمسان کا رن پڑتا اور جس میں دونوں اطراف کے حمایتی ایک دوسرے کے نمبرداروں کی نظر  میں اپنے نمبر بڑھانے ایک دوسرے سے بھڑ جاتے ، جس میں نہ صرف املاک کی خوب توڑ پھوڑ ہوتی بلکہ برادران بھی ایک دوسرے کو خوب کُوٹتے ۔ جب کبھی کوئی ایک حمایتی یا عاشق کچھ زیادہ ہی ڈیمیج ہوتا تو اسے علاج کے لیے شہر بھیجنا پڑتا اور یوں یہ معاملہ میڈیا تک پہنچ گیا ۔ اس معاملے کی بھنک پڑتے ہی ہر طرح کے میڈیا پر یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی ۔
who_is_real_lord_mount_ batten#
تب ہی کرتا دھرتاؤں کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا کہ اس معاملے کی طوالت ان کے طویل المدتی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ یوں معاملہ حل کی طرف لے جانے کی بات ہو نے لگی اور ’ کچھ لو کچھ دو ‘ کے آزمودہ اصولوں کے تحت یہ معاملہ سلجھانے کا اصول طے ہوا۔

فیصلے کے مطابق ’ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ‘ ہونے کے دونوں دعویداروں کو ایک ر ات کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تا کہ وہ آپس میں ہی لڑ جھگڑ ، بحث و مباحثہ ، دعویٰ  و جواب دعویٰ  شکوے گِلے کر کے یا پھر ایک دوسرے کو پچھاڑ کر طے کر لیں کہ اصلی تے وڈا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کون ہے تاکہ پاگل خانے میں توازن اور استحکام آئے اور باہمی مفاد کے معاملات آگے بڑھتے رہیں ۔ مرکزی ہال میں بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی ابلاغی نمائندے اپنا تام جھام لیے بریکنگ نیوز کے لیے ایک دم مستعد و تیار تھے۔ انتظامیہ کے علاوہ نئے نویلے کو لانے والی غیر مرئی مخلوق بھی مخفی و موجود تھی جس کے ہاتھ پاؤں بھی پھولے ہوئے تھے کہ وہ ہر دو کی تخریبی و مزاحمتی طاقت سے کما حَقّہ واقف تھی کہ ایک فراموش رات کی کہانی اور دوسرا نئی بوتل میں پرانی شراب کا وعدہ فِردا تھا۔ رات بھر پاگل خانے کے مکینوں پر ہیجان کی کیفیت طاری رہی تھی ، ہر کوئی منتطر تھا کہ روز روز کے اس بے قابو قضیے کا کوئی نتیجہ نکلے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رات بھر انتظار کی گھڑیا ں گنتے حاضرین میں ایک دم جوش کی لہر دوڑ گئی جب انہوں نے آہستہ آہستہ کمرے کا دروازہ وَا ہوتا دیکھا۔ صحافیوں اور عملے کا غول دروازے کی طرف دوڑا ، غیر مرئی مخلوق بھی غنودگی سے جاگ کر چوکنّا ہو کر اُکڑوں بیٹھ گئی ۔ دروازہ پورا کھل چکا تھا اور پہلے نئے نویلے نے قدم باہر نکالا ، سینہ تانے،ا کڑی مونچھوں اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ۔ اس کے تو رنگ ڈھنک ہی بدلے ہوئے تھے جو عام طور پر ایسی خواتین کے رکھ رکھاؤ کا حصہ ہوتا ہے جن کے بارے میں سوتنوں میں مشہور ہوتا ہے ’ جسے پیا چاہے وہی سہاگن ‘ اور آج کل ڈھولن پیا اسے ہی چاہ رہے ہیں ۔ نئے نویلے کے پیچھے چہرے پر ایک سکون آمیز اطمینان پھیلائے ، ہونٹوں پر معصوم تبسم بکھیرے، شرمائے لجائے نگاہ نیچی کیے چھوٹے چھوٹے نپے تلے قدم اٹھاتے، جھکائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی خراماں خراماں چلے آرہے تھے ۔ عوام کی کثیر تعداد، کیمروں اور رپورٹروں کی موجودگی نے اس موقع کو سادہ مگر پُر وقار تقریب میں بدل دیا تھا۔ اس سے پہلے انتطامیہ کوئی سوال کرتی ، ٹائٹ ٹراوزر اور اس اس سے بھی زیادہ ٹائٹ ہاف ٹاپ پہنے حجاب میں اپنی چٹیا چھپائے ایک صحافن نے ملین ڈالر سوال داغ دیا ’ کیا یہ طے ہوگیا کہ آپ دونوں میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کون ہے ‘۔ اس سوال کا جواب نئے نویلے نے فوراً ہی دیا ’ جی ہاں ‘ ۔ یہ سننا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ انتطامیہ اور  سٹاف مع غیر مرئی مخلوق نے یک آواز ہو کر کہا، ’ پھر جلدی سے بتائیے ، آپ دونوں میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کون ہے ‘۔
سینہ تانے لہجے میں فخر بھر کر آواز میں بھاری پن اور ادائیگی میں ڈرامہ ڈال کر نحیف و نزار نویلے نے گرج دار آواز میں کہا
’ آئی ایم لارڈ ماؤنٹ بیٹن ‘
مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا ، پھر کسی چانٹہ خور قسم کے صحافی نے سکوت توڑتے ہو ئے سوال کیا کہ اگر آپ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہیں تو پھر آپ کے ساتھ یہ کون ہے ؟
اس سوال کے جواب میں ساتھ والے نے لجاحت سے صرف اتنا کہا :
’ آئی ایم لیڈی ماؤنٹ بیٹن ‘
اور یہ کہہ  کر اس نے شرماتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پیچھے پناہ لے لی۔
And they lived happily ever after

Facebook Comments

ShafiqZada
شفیق زاد ہ ایس احمد پیشے کے لحاظ سےکوالٹی پروفیشنل ہیں ۔ لڑکپن ہی سے ایوَی ایشن سے وابستہ ہیں لہٰذہ ہوابازی کی طرف ان کا میلان اچھنبے کی بات نہیں. . درس و تدریس سے بھی وابستگی ہے، جن سے سیکھتے ہیں انہیں سکھاتے بھی ہیں ۔ کوانٹیٹی سے زیادہ کوالٹی پر یقین رکھتے ہیں سوائے ڈالر کے معاملے میں، جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طمع صرف ایک ہی چیز ختم کر سکتی ہے ، اور وہ ہے " مزید ڈالر"۔جناب کو کتب بینی کا شوق ہے اور چیک بک کے ہر صفحے پر اپنا نام سب سے اوپر دیکھنے کے متمنّی رہتے ہیں. عرب امارات میں مقیم شفیق زادہ اپنی تحاریر سے بوجھل لمحوں کو لطیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ " ہم تماشا" ان کی پہلوٹھی کی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں جس نے ہم تماشا نہیں پڑھی اسے مسکرانے کی خواہش نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply