وجدان (Intuition) اور تعلیم ۔۔۔وہارا امباکر

کیا آپ چار ہندسوں کے دو اعداد کو ذہن میں ضرب سے سکتے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے ہر ملنے والے کا فون نمبر یاد ہے؟ کیا کہا؟ نہیں، ناممکن؟؟ یہ کام تو ایک سستا ترین موبائل فون کا “دماغ” بھی بہت آسانی سے کر لیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف۔۔۔ کیا آپ اپنے ہر ملنے والے کے چہرے کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں؟ دیکھتے ہی اس کے تاثرات کا اندازہ لگا لیتے ہیں؟ کیا کہا؟ ہاں، بھلا یہ بھی کوئی مشکل ہے؟؟ یہ کام دنیا کے طاقتور ترین کمپییوٹر نہیں کر پاتے۔

ہم وجدانی طور پر انتہائی پیچیدہ کام انتہائی آسانی سے کر لیتے ہیں، جن کی پیچیدگی کا ہمیں ادراک تک نہیں ہوتا لیکن جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی ہماری لئے نئی اور خفیہ دنیائیں کھولتی جا رہی ہے، غیرتربیت یافتہ وجدان دنیا کو سمجھنے میں مشکلات سے دوچار ہو رہا ہے۔ ہم نے اس کا علاج ڈھونڈ لیا ہے، اس کو تعلیم کہتے ہیں۔

یہ وجدان کیا ہے؟ انسانی استدلال کسی ایک جنرل پرپز کمپیوٹر کی طرح نہیں ہے۔ یہ دنیا ہوموجینئیس نہیں۔ اور ہم میں حقیقت کو جاننے کے لئے کئی طرح کے سسٹم، ماڈیول، ذہنی اعضاء، کئی طرح کی ذہانتیں، استدلال کے انجن پائے جاتے ہیں۔ یہ زندگی کی ابتدا سے آنا شروع ہو جاتے ہیں، ہر نارمل شخص میں ہوتے ہیں اور دماغ کی مختلف جگہ پر نیٹ ورکس کا حصہ ہوتے ہیں۔ کئی جینز کی کمبی نیشن سے، ماحول کے لحاظ سے دماغ کی اپنی بدلتی آرگنائزیشن سے۔ اگرچہ ذہن کی اناٹومی پر اتفاق نہیں لیکن کچھ کوگنیٹو فیکلٹی اور بنیادی وجدان، جن کا ہمیں علم ہے، اس طرح کے ہیں۔
وجدانی فزکس: کوئی چیز کیسے گرے گی، اچھلے گی، مڑے گی۔ یہاں پر آبجیکٹ کا تصور ہے۔ حرکت اور فورس کا تصور ہے۔ وقت اور جگہ کے تعلق کا تصور ہے۔ یہ نیوٹن کے قوانین کی طرح کا نہیں۔
وجدانی بائیولوجی: زندہ چیزوں کی دنیا سمجھنا۔ جسمانی فنکشن، ان کا بڑھنا، عمر رسیدہ ہونا، اس کی شکل اور سٹرکچر کا سمجھنا۔
وجدانی انجینرنگ: اس کو استعمال کر کے ہم اوزار اور دوسری اشیاء بنا لیتے ہیں۔ آبجیکٹ اور اس کے مقصد کا تعلق سمجھ لیتے ہیں۔
وجدانی نفسیات: اس کی مدد سے ہم دوسروں کو سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی جذباتی کیفیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ ہم مشین اور آبجیکٹ کی انسانوں سے تمیز کر لیتے ہیں۔
وجدانی طور پر جگہ کی سینس: اس سے ہم دنیا میں چل پھر سکتے ہیں، یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کونسی چیز کہاں پر ہے۔ ذہن میں جگہوں کے نقشے رکھتے ہیں۔ اہم چیزوں کے ریفرنس سے دنیا کو پہچان لیتے ہیں۔
وجدانی اعداد کی سینس: چھوٹے اعداد کو ٹھیک ٹھیک گن لینا، ان کی تمیز کر لینا۔ بڑے اعداد میں اندازہ لگا لینا۔
وجدانی امکانات کی سینس: کونسی چیز کے ہونے کا امکان کم ہے کس کا زیادہ۔
وجدانی اکانومکس: اس سے تجارت ممکن ہوتی ہے۔ کونسا سودا ٹھیک ہے۔ کیا کوئی چیز دے کر بدلے میں حاصل ہونے والا فائدہ منصفانہ ہے یا نہیں۔
ذہنی ڈیٹابیس اور منطق: کب کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ کون کہاں پر ہے؟ کس کا کس کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ وغیرہ۔ اس ڈیٹابیس سے منطق لے کر ہم فیصلے کرتے ہیں، نتیجے نکالتے ہں۔ (طیفے کو پکوڑے بہت پسند ہیں، شیداں طیفے کے لئے پکوڑے بنا کر لائی ہے۔ مطلب؟؟) اس سے وجدانی طور پر ہم ہر وقت دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
زبان: اس سے ہم اپنے خیالات اپنی ذہنی منطق کی بنیاد پر نکال کر دوسروں سے شئیر کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے خیالات سمجھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے اپنے لئے وجدان اور جذبات میں تمیز مشکل ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ زندگی آسان نہیں اور یہ ہمیں دنیا میں زندہ رکھنے میں ماہر ہیں۔ یہی ان کا مقصد ہے۔ اور یہ اس کو انتہائی زبردست طریقے سے سرانجام دیتے ہیں۔ ہم اس کو کھینچ کر اپنے ذہنی اعضاء سے وہ کام لیتے ہیں، جو اصل میں اس کے کرنے کا نہیں اور یہاں پر یہ ذہنی آلات مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جہاں پر یہ ان شعبوں میں دھوکا دیتے ہیں (کیا؟ کسی چیز کو حرکت دیں تو وہ خود سے کبھی رکتی ہی نہیں؟ کیا؟ سورج زمین کے گرد گردش نہیں کرتا؟)، وہاں علم کے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں پر یہ بالکل کام نہیں آتے۔ جدید فزکس، کاسمولوجی، جینیات، ایولیوشن، ایمبریولوجی، نیوروسائنس، معاشیات، فارمل ریاضی وغیرہ جیسے شعبوں کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس ذہنی اوزار نہیں۔ اس کے لئے تربیت دینا ہوتی ہے۔ ہمارا اپنا کوگونیٹو آلہ بائیوایتھکس، فوڈ سیفٹی، ایجوکیشن اور خود انسان کو بھی نہیں سمجھ پاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی ان حدود سے ٹکرانے اور آگے بڑھنے کا پہلا ذریعہ سکول ہے۔ بچے سکول میں چلنا پھرنا، باتیں کرنا یا چیزوں کو پہچاننا یا دوستوں کی شخصیتوں کا اندانہ لگانا سیکھنے نہیں جاتے، حالانکہ یہ کام پڑھنے، اعداد کو جمع کرنے یا تاریخیں یاد رکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہیں۔ لکھائی، ریاضی، سائنس سکول میں سیکھی جاتی ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو اسی تربیت سے ہی آ سکتے ہیں۔

تعلیمی نظام میں صرف نئے تصورات بتانا اور فیکٹس یاد کروا دینا فائدہ مند نہیں ہے بلکہ ذہن میں نصب ان وجدانوں کی پہچان کروانا اور ان میں سے غلطیاں تلاش کروانا ضروری ہے۔ اگر وجدانی فزکس میں سے غلطیاں نکالنے کے قابل نہیں ہو سکے تو نیوتن کے قانون بھی سمجھ نہیں پائیں گے۔ وجدانی اکانومکس میں سے غلطیاں تلاش کئے بغیر اکانومکس نہیں سمجھ پائیں گے۔

اپنے ان ذہنی بلیک بوکس کو پہنچاننا، اپنے میں غلطی ڈھونڈ لینا ضروری کام ہے۔ دوسری چیز اس وجدان کی بنیاد پر ٹھیک استعاروں کی مدد سے تصورات ڈالنے کا کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں پر گئیری ایک چیز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تعلیم ہمارے لئے ایک کوگنیٹو طور پر فطری نہیں۔ اس لئے رسمی تعلیم آسان نہیں ہوتی اور خوشگوار نہیں ہوتیِ، خواہ ہم جتنی بھی کہیں کہ سیکھنا ایک مزیدار کام ہے۔ ایسا نہیں ہے (کسی بھی طالبعلم سے پوچھا جا سکتا ہے)۔ بچے کھیلنے میں، دوست بنانے میں، ان میں نمایاں مقام لینے میں، اور دنیا کو ایکسپلور کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ فارمل ریاضی جیسی چیزوں میں اس طرح کی خوشی محسوس نہیں کرتے۔ ایک فیملی، ایک پئیر گروپ، کلچر کا تعلیمی قابلیت اور اس میں حاصل کردہ اچیومنٹ کو نمایاں مقام قرار دینا ضروری ہے۔ یہ طلباء میں وہ جذبہ برقرار رکھتا ہے جو سیکھنے کے نتیجے میں نکلنے والے طویل مدتی مستقبل کے اچھے نتائج میں بہت معاون ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply