معصیت ۔۔مختار پارس

ساری خلقِ خدا کیسے گناہگار ہو سکتی ہے۔ تخلیق کا مقصد عاصیوں کا زمین کے طول وعرض پر انتشار تو ہرگز نہیں تھا۔ کیا کوئی ہو گا ایسا  صاحبِ  کمال حق و یقیں،جس کے عارض ِ دل پر معصیت کی پرچھائیاں نہ لرزتی ہوں۔ گر سبھی خطا کے پتلے ہیں تو پھر کون سا عمل ہے جو گناہ نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک گنہگار اٹھ کر دوسرے گناہگاروں سے کہے کہ گناہ نہیں کرنا۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سب سر دھن کر مانتے ہوں کہ یہ گناہ ہے اور پھر بھی اسے کرتے ہوں۔ سب زاروقطار اقرار کرتے ہوں کہ ہم گناہگار ہیں اور پھر اگلے دن پھر وہی گناہ کرتے ہوں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ اعتراف ایک عمل عظیم ہے جو گناہ کو دھو دیتا ہے اور یہ کہ گناہ کی حیثیت کچھ بھی نہیں کیونکہ اسے تو دھل ہی جانا ہے۔ یوں ایک عمل جسے مخلوق میں سے کچھ سرعام کرتے ہوں، ماورائے  حساب قرار پاتا ہے اور وہی عمل کوئی چھپ کر کرےتو گناہ بن جاتا ہے۔ جب تک کوئی چھپ کر کچھ بھی کرتا رہے وہ پارسا ہے اور جب کسی کا راز نہ رہے تو وہ گنہگار۔ جیسے گناہ خود کوئی عمل نہیں بلکہ اعمال کا خفتہ رہنا گناہ ہے۔ اس عمل کا لوگوں کو پتہ چل جانا گناہ ہے اور اس عمل کو اپنی پشیمانی کے آنسووں سے نہ دھونا گناہ ہے۔

خالق نے تو اتنے گناہ نہیں گنوائے ۔ ہوا یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے خدشات اور اپنے تحفظات کو بھی گناہ کے زمرے میں ڈال دیا اور پھر دنیا نے اپنی سہولت کےلیے  اپنے خدا بھی بدل لیے۔ ابتدائے  آفرینش میں گناہ تو صرف ایک تھا کہ رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا۔ اسی ایک حکم کی تقلید کےلیے  تو تخلیق ہوئی تھی۔ پھر یہ حکم پہنچا کہ حقوق العباد کا ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ کون جانتا ہے کہ دروازے پر آنے والا خود خدا ہو، اگر اس کا حق ادا نہ کیا تو وہ اپنی رحمت کے دروازے تو بند نہیں کرتا مگر سوچے گا کیا؟طے یہ ہوا کہ جہاں کسی نے خدا بننے کہ کوشش کی یا کسی نے کسی کو خدا بنانے کی کوشش کی، وہ گناہ میں جکڑا گیا۔ سمجھ یہ آئی کہ جہاں کسی نے کسی دوسرے انسان کا دل دکھا دیا، اس نے رب کے ساتھ کیے ہوۓ وعدے کو توڑ دیا۔ گناہ کا اندازہ آسمان کی طرف دیکھ کر نہیں، اپنے سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ جو کسی کی غیرموجودگی میں کسی کو گناہ کا مرتکب قرار دیتا ہے، وہ خدا بننے کی کوشش میں مبتلا ہے۔ گناہ کے ثبوت کےلیے  گواہی بہت ضروری ہے،چاہے وہ ضمیر کی گواہی ہو یا دوسرے ذی ہوش لوگوں کی۔ کسی کے ضمیر کے گلے میں پھندا ڈال کر گناہ کا اقرار کرانا بھی گناہ ہے اور کسی کے گناہ کی گواہی پر اصرار بھی گناہ ہے۔

خدا کی پناہ انسان کو تب میسر ہوتی ہے جب وہ خود اپنی پناہ گیری کرتا ہے۔ گناہ سے بچنے کا طریقہ خود احتسابی میں ہے۔ دوسروں کو نیک بنانے کی فکر چھوڑ دینے میں عافیت ہے۔ اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے کے گھر میں راہ راست کھودنے کا عمل انسانیت کو تھکا دے گا۔ خدا تک پہنچنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو خدا تک پہنچنےکا عمل نہیں جانتے انہیں دوسروں کے گریبان پکڑنے کا کوئی حق نہیں۔ جو اللہ  سے رجوع کرلیتا ہے اسے حق و باطل کے جوابات مل جاتے ہیں۔ جو اس سے رجوع کرنے سے انکار کرتا ہے، قنوط کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر اس کا کچھ نہیں رہتا۔ نہ وہ کسی کا ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اسکا ہو سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہو جاۓ تو تب بھی رحمت سے ناامیدی سب سے بڑا گناہ ہے۔

اگر ہر چیز نے حقیقت کی آگ میں جل کر فنا ہونا ہے تو سلگنے اور جھلسنے میں ہچکچاہٹ کیسی؟ سوکھی لکڑی کو آگ جلد پکڑ لیتی ہے اور لپکتے شعلے چند ہی لمحوں میں اسے راکھ میں بدل دیتے ہیں۔ گیلی لکڑی کو آگ ذرا دیر سے لگتی ہے۔ اسے مہلت مل جاتی ہے اور وہ دیر تک سلگتی رہتی ہے۔ جب تک ہستی کے خس و خاشاک سے دھواں اٹھتا رہے، غنیمت ہے۔ انسان ‘دھختی” آگ کے پاس بیٹھا ہو اور اس کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ کسی کی آنکھ سے آنسو نکل رہے ہوں اور اس کے معصیت نہ پگھل رہی ہو، یہ بھی کیسے ممکن ہے۔ کسی کی معصیت پگھل رہی ہو اور اسکی راکھ میں سے کوئی ہویدا نہ ہو رہا ہو، یہ بھی کیسے ممکن ہے۔

انسان کے گناہوں کی فصیلیں بہت بڑی ہیں؛ وہ اسے شہر ذات کے اس پار نہیں دیکھنے دیتیں۔ اس نے جستجو میں گستاخی کی تھی، صلے میں اسے اور جستجو مل گئی۔ اب وہ اور گناہ نہ کرے تو کیا کرے۔ ابن آدم جانتا ہے کہ اسکی سزا یہاں سے بھی بیدخلی ہے۔ اسی جستجو میں اسے اور جہان ڈھونڈنے کا حکم ہے۔ وہ سدرۃ المنتہیٰ  کی طرف لوٹ جانے سے گھبراتا ہے کیونکہ اس نے ابھی کچھ ثابت نہیں کیا۔ وہاں جانے سے پہلے اسے ثابت کرنا ہے کہ اسکی جستجو کے پیچھے معصیت نہیں، بلکہ معصومیت تھی۔ اس حقیقت کے یہ ثبوت افلاک میں بکھرے پڑے ہیں اور اسے ارض و وسما میں انہیں ڈھونڈنا ہے۔گناہ کی سزا موت نہیں، زندگی ہے؛ اور گناہ کی سزا اور زندگی ہے۔تلاش حقیقت فراق اور ریاضت شب وصل، گناہ نہیں۔ جس دن انسان کو اسکا ثبوت مل گیا، یوں سمجھیں اسے ثبات مل گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply