جانے والے کو سلام۔۔روبینہ فیصل

میں جب 18سال کی ہوئی تھی تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں 2018بھی دیکھ پاؤں گی مگر دیکھیے  زندگی میں وہ کچھ بھی ہو جاتا ہے جس کا انسان نے سوچا بھی نہیں ہو تا۔ اور وہ کچھ نہیں بھی ہو پاتا جس کے بارے میں ہم بڑی پلاننگز کر تے رہتے ہیں۔ یعنی کہ بات صرف سوچ کی ہو تی ہے، ہندوانہ سوچ کے مطابق آپ جیسا سوچتے ہیں بالآ خر وہی آپ کی زندگی میں ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ سوچ اتنی مضبوط ہو چکی ہو تی ہے کہ ساری کائنات جُٹ کر اسی کو عمل میں ڈھال دیتی ہے۔ اسلامی سوچ اسی بات کو کچھ یوں پیش کر تی ہے کہ ہمیشہ اچھا اچھا سوچو۔۔
ساری مذہبی بکس ایک طرف اور ایک چیز ہے فیس بک وہ کیا کہتی ہے۔؟وہ کہتی ہے خبردار خود سے کچھ سوچا بھی تو،بس اوروں کو دیکھو۔

آج میں نے فیس بک پر لکھناتھا، درمیان میں نیا سال آگیا تو پہلے نیو ائیر پر۔۔۔
گذرے سال کے جانے کے دکھ کو کوئی نہیں روتا سب آنے والے کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مگرمیں دسمبر کے آخری تین دن بہت اداس ہو جاتی ہوں شاید اس کی وجہ میرے اندر غیر ضروری وفا ہے کہ مجھ سے پرانے کو چھوڑ کر نئے کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔۔ ہر طرف دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں نئے سال کے جلوے ہو تے ہیں۔ ہر کوئی اپنے حساب اور اوقات کے حساب سے برات لاتا ہے اور چھم چھم نئی نویلی دلہن کا استقبال ہو تا ہے۔پرانا سال کسی ٹھکرائی ہو ئی محبوبہ کی طرح دہائی ہی دیتا رہ جاتا ہے مگر کس کو پروا؟ او ر وہ اس بات کو تسلیم کر نے میں آنسوؤں میں بہہ جا تا ہے کہ اس کو ایسے بھی بھلایا جا سکتا ہے؟مگر یہ دستور ِ زمانہ ہے اس کے ساتھ نہ چلو تو دنیا روند کر آگے بڑھ جا تی ہے۔میں نے اپنی ہو ش میں جب بھی جاتے سال کے ڈوبتے سورج کو دیکھا مجھے اس میں ایک خاص قسم کی گریس،ایک متانت نظر آئی ہے۔ وہ جاتے ہو ئے چیختا چلاتا نہیں،اپنی ناقدری کا ماتم نہیں کر تا، اپنی موت پر بین نہیں ڈالتا،بدلے چہروں، جنہوں نے کبھی اسے پیار سے گلے لگایا تھا اور آج نئے کے لئے اسی طرح بازو کھولے کھڑے ہیں، اس پر بے بسی سے ٹکرے نہیں مارتا بلکہ وہ ان سب باتوں کو گریس فلی قبول کر کے،اپنے مقررہ وقت کے پو رے ہو جانے کے بعد بس چہرے پر مسکراہٹ سجائے چلا جاتا ہے۔ اس جاتے سال کے سورج میں مالک ِ کائنات کی طرف سے ہم جیسوں کے لئے ایک پیغام چھپا ہوتا ہے کہ:
جب نظام فطرت ہی “بدلنا “ہے تو اس پر ماتم کیسا۔۔۔

میں پھر بھی اداس رہتی ہوں۔ میری فطرت شاید نظام فطرت سے میچ نہیں کر تی۔survival of the fittestمیں مس فٹ میرے جیسے ہی ہو تے ہوں گے۔ ضرورت سے زیادہ حساس اور ضرورت سے زیادہ وفا دار۔کہتے ہیں نہ کہ excess of everything is bad۔۔تو یہ جو بھی زیادتی میرے اندر ہے وہ badہے اور جو بھی چیز دنیا کے حساب سے نارمل نہیں وہ ابنارمل ہے۔۔ سو میں Bad and abnormalہوں۔۔ جب میں نے یہ تسلیم کر لیا تو سب دھند چھٹ گئی۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہ رہا، اور آج
جا تا ہوا سال مجھے میری پہچان دے گیا۔۔

دسمبر میں اکثر لوگ شادیاں کرتے ہیں یا بے وفائیاں۔۔۔یہ بھی اسی مہینے کا کمال ہے۔
جاتے سال کی آخری رات جب نیاگرا فالز کی جما دینے والی سردی میں، میں کھلے آسمان تلے کھڑی اس مصنوعی آتش بازی سے محظوظ ہو نے اور وہاں کھڑے ہزاروں کے  مجمعے کی طرح خوشی کے نعرے لگانے کی کو شش کر رہی تھی،ایسے میں صرف میرے سامنے ہی وہ” جا تا ہوا چاند” کیوں آکھڑا ہوا۔؟2017 کے اس چاند نے مجھ سے ہی کیوں کہا کہ صبح کا سورج طلوع ہو گا تو وہ بھی اس کا نہ ہو گا۔۔ چاند کے اس خاموش انکشاف کے بعد،ہڈیوں کو جمانے اور ہونٹوں کو نیلا کر دینے کی طاقت رکھتا ہوا -30درجہ حرارت میری آنکھوں میں آنے والے گرم پانی کو نہیں روک سکا۔

شادیوں اور بے وفائیوں والے اس مہینے کے کر توت جانتے ہو ئے ساتھ کھڑے ہو ؤں نے میرے چہرے پر اترنے والی کر ب کی پیلاہٹ کو اندھیرے میں بھانپتے ہو ئے شرارت سے کہا ” یہ تو ناکام عاشقوں کے لئے اداسی کا مہینہ ہے تم کیوں اداس ہو۔” اس سوال کے جواب میں میرے پاس وہی والی ہنسی تھی جس کے کندھوں پر بہت کچھ چھپانے کا بوجھ ہو تا ہے۔جسے سمجھنے کو یہ دنیا تیار نہیں، اور جسے سمجھانا میرے بس سے باہر ہے۔ کون سمجھے گا کہ جاتا چاند اور نئے سال کا پہلا  سورج مجھے فطرت کے  فطری بدل جانے کا جب پیغام دیتا ہے تو کیسے میرے اندر” ایک جیسے منظر” عمر بھر دیکھنے کی تمنا کا خون ہو تا ہے۔ ایسی ابنارمل وفا کی خواہش کو کون سمجھے گا جب کہ ہر طرف پٹاخے پھوٹ رہے ہوں، اور خوشی کے بھونپو بج رہے ہوں۔ یہاں تک بھی بات رہے تو ٹھیک ہے مگر جب اسی وقت وٹس ایپ  پر ایک میسج موصول ہوا: پاکستان میں سال کے اس آخری دن، دنیا میں ہو نے والا ہر وہ غلط کام ہو تا ہے جسے پاکستان میں منافقت کی وجہ سے چھپایا جاتا ہے۔۔مجرے، شراب، مجبور و معصوم لڑکیوں کی خرید و فروخت اور سب کچھ۔۔۔

آج کل کے مشہور نعروں “صرف اپنے آپ کو خوش کر نے” ہی کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہاں خوش کر نے کے ایسے کھوکھلے طریقوں سے خوشی نکالنا؟۔ مجھے سب غم زدہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر، مست ہو کر صرف عیش سے زندگی گزارنے ہی کی سمجھ نہیں آتی،کہاں عیش کے ایسے طریقوں سے خوشی حاصل کر نے کی سمجھ آتی ہو۔۔۔مجھے سال کے آخری شب کے چاند کے جانے کی گریس فل سوگواری ہی کو سمجھنے میں اور اپنانے میں اتنا وقت لگ گیا، مجھے کہاں ایسی لڑکیوں کی خر ید و فروخت اور شراب میں دھت ہو کر شب خون مارنے کی سمجھ آئے گی۔ اس سمجھدار دنیا میں میری ایسی ناسمجھی کہاں تک جائے گی۔ اس کا مجھے بالکل اندازہ نہیں۔ مس فٹ ہو تے ہو تے کب منظر سے مکمل غائب ہی ہو جاؤں، نہیں جانتی۔

جدائیوں اور شادیوں کے اس مہینے میں،اور اس کے آخری دن کے چاند میں جو سبق کائنات کے لوگوں کے لئے ہے اسے پڑھے بغیر مجبورعورتوں کو خرید کر ان کے جسموں سے اپنے لئے خوشی ڈھونڈنا، یا بے سدھ کر دینے والے نشے کو celebrationکہنا۔۔۔کیا ہر چیز کی طرح خوشی بھی کھوکھلی ہو گئی ہے؟
کیا ان چیزوں کا تعلق خوشی سے ہے؟ “جاتے ہو ئے کو بھول “کرنئے کے لئے خوش ہو نا تو چلو میں مان لوں کہ نئی دلہن کی ایکسائٹمنٹ ہی بہت ہوتی مگر خوش ہو نے کے بھی ایسے بھونڈے اور کھوکھلے طریقے؟ کہ جن کو مناتے مناتے انسان کی شکل ہی مسخ ہو جائے اور جب نئے سال کا نیا سورج چڑھے تو ایسی خوشیاں منانے والوں کے دامن میں نہ کوئی سچا رشتہ بچے، نہ دعا والے ہاتھ۔۔ ہاں فیس بک پر لوگوں کا ایک ہجوم آپ کا اثاثہ ہو سکتا ہے،۔۔۔ہی ہو ہا ہا۔۔اپنی اپنی خوشیاں ڈھونڈنے والے۔اپنے لئے خوشیاں ڈھونڈنے میں مجھے کو ئی اعتراض نہیں مگر سوال ہے کہ کیا ایسے طریقوں کا سچی خوش سے کوئی تعلق ہو تا ہے؟
مستنصر حسین تارڑ کے ناول “راکھ “میں بار بار دہرایا جانے والا سوال۔۔
کیا شکار کی ہو ئی چار مر غابیوں کا تعلق کسی خوشی سے ہے؟ آج کل کے فیشن کے مطابق صرف اپنے لئے خوشی ڈھونڈتے ہو ئے ہر دوسرے انسان کے لئے relevant ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسروں کو مار کر خود خوش رہنے میں، اگر خوشی مل رہی ہے تو سوچیں آپ انسانیت کے کون سے درجے پر فائز ہیں؟
کیا آپ آج بھی اشرف المخلوقات کے ٹائٹل کے حقدار ہیں؟ مگر اتنا کون سوچے۔۔ انجوائے کر نے والے تو ضمیر کو جھنجوڑ دینے والے ٹیکسٹ میسجز پڑھنے چھوڑ دیتے ہیں، ایسی باتوں پر سوچنے کا وقت تو دور کی بات۔۔ انجوائے کر نے سے فرصت ہو تو آن گرے۔۔۔ ضمیر پر بوجھ ٹائپ ُ کی کوئی چیز۔
جانے والے سال کو سلام۔۔جانتی ہوں کوئی اور تمھیں یاد نہیں کرے گا۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply