جنسی درندگی، اسباب و سدباب (حصہ اول)۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

بچے سے زیادتی،بچی سے زیادتی،لڑکی سے لڑکے سے زیادتی،ہمسائے اور استاد سے لے کر خون کے رشتوں تک کی زیادتی،زندہ انسانوں سے لاشوں اور لاشوں سے لے کر  جانور بھیڑ بکری گدھی تک سے زیادتی،چار سالہ بچے سے لے کر 24 سالہ لڑکی اور 24 سالہ لڑکی سے لے کر 54 سالہ بوڑھی تک،کوئی جنس،کوئی عمر،کوئی صورت(زندہ/مردہ) کوئی مخلوق (انسان/جانور محفوظ نہیں,زیادتی کے بعد گلہ دبا دیا,زیادتی کے بعد مار دیا, مار کے کھیتوں میں پھینک دیا،کنویں میں پھینک دیا،دبا دیا، کاٹ دیا،زیادتی کے بعد یہ،زیادتی کے بعد وہ زیادتی،زیادتی،زیادتی۔۔۔۔پورا ملک دہک رہا ہے ہر طرف جنسی درندے رالیں ٹپکاتے،بھوکی نگاہوں اور خون رنگے ہاتھوں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں جہاں جہاں جو جو ذی روح نظر آ رہا  پکڑ کر درندگی کا نشانہ بنا کر پھینک دیتے ہیں۔۔۔۔

لیکن کوئی فرق تک نہیں۔۔ہم رو پیٹ لیتے ہیں،حکومتی ایوانوں سے مذمتیں آ جاتی  ہیں،اس کے علاوہ جوں تک نہیں رینگتی مقتدر حلقوں میں۔۔کیا ہم کر نہیں سکتے۔۔کیا یہ سب رک نہیں سکتا؟ کیا ہمیں اسباب و سدباب کا ادراک نہیں یا فکر ہی نہیں؟

ہماری طرف سے اسی بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ماں باپ، پیدا ہوتے  ہی اُن کا  گلا دبا کر مار دیں کہ اسے دنیا میں سانس لینے کی قیمت جنسی درندگی کا نشانہ بن کر چکانی پڑے گی۔

رسمی شور شرابے اور مذمتوں سے یہ نہیں رکنے والا ،زینب کیس پر کتنا شور اٹھا۔۔ کیا اس کے بعد یہ سب بند ہو گیا۔۔؟

نہیں ،تو کیوں نہیں۔۔؟؟ شاید ہم ہمارے حکمران اس سوال کو جاننے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔

گو کہ  ہرہر صاحبِ  شعور کو بخوبی ادراک ہے ، لیکن پھر بھی دن بدن بڑھتی جنسی درندگی کے اسباب و سدباب کو درج ذیل نقاط میں سموتے ہوئے لکھ رہا ہوں

(ایک بات پہلے واضح کرنا چاہوں گا کہ اس درندگی کا ذمہ دار کرنے والا ہی ہوتا ہے مکمل طور پر جو کہ عبرتناک سزا کا مستحق ہوتا ہے  کہ ایسے غلیظ اذہان اس زمین پر بوجھ ہیں۔۔لیکن اس تحریر میں بیرونی عناصر کی بات کروں گا جن سے کسی بھی درندے کو شہہ بھی ملتی)

• دن بدن بڑھتی ہوئی جنسی ہیجان انگیزی

• جنسی گھٹن زدہ معاشرہ

• جنسی آسودگی کے جائز راستے کا مشکل سے مشکل ترین ہوتے جانا

• جنسی درندگی کے بعد مجرم کو بچ جانے کا یقین( کمزور ترین قانونی عملداری)

دن بدن بڑھتی ہوئی جنسی ہیجان انگیزی

جنسی جذبات انسانی جسم کا حصہ ہیں اور یہ بُری چیز بھی نہیں،بُرا ہمیشہ کسی بھی چیز کا اپنی حد سے نکل جانا ہوتا ہے،اس کی سادہ سی مثال گیس سلنڈر کی لی جا سکتی  ہے،جس میں گیس موجود ہوتی  ہے،ضروریات زندگی کے لیے لیکن اگر سلنڈر ہی کے نیچے آگ جلا کر رکھ دی جائے تو؟۔

جنسی درندگی بھی ایسے ہی جنسی جذبات کا شاخسانہ  ہے ،جو اپنی حد سے نکل کر درندگی کی انتہا پر پہنچ جاتے  ہیں اور جیسے آگ گیس پر اثر انداز ہوتی  ہے،ایسے ہی ہیجان خیز مواد انسانی جنسی جذبات کو برانگیختہ کر کے انہیں حد سے نکالنے کا باعث بنتا  ہے،اور یہ ہیجان خیز مواد آج ہر ہر بندے کے ہاتھ میں موجود ہے،موبائل اور انٹرنیٹ ہر ہر بندے کے پاس  ہے ،جس میں دو کلک پر فحش فلمیں موجود،ہزاروں نئی  لاکھوں ویب سائٹس ہیں جو ہر شخص  کی رسائی میں ہیں ۔۔۔اس کے بعد بھارتی فلمیں اور گانے سب سے زیادہ ہیجان انگیزی کا باعث بنتے  ہیں ۔باقاعدہ طور پر نفسیاتی بنیادوں پر تیار کردہ ہیجان خیز مواد ان گانوں اور فلموں میں پایا جاتا ہے  اور یہ بتدریج بڑھ رہا ہے، شاید کہ  پورن موویز بھی اتنی ہیجان خیز نہ ہوں جتنی یہ بالی ووڈ فلمیں اور گانے  ہیں ۔یہ خالی دعویٰ یا اندازہ نہیں میں نے اس تحریر سے پہلے باقاعدہ طور پر لسٹیں سرچ کیں، موسٹ سینشویل اور سیکس سٹیمولیشن کنٹینٹ کی اور میں دعویٰ کر سکتا ہوں  کہ ان موویز اور گانوں سے اگر کسی صاحب کے جذبات برانگیختہ نہیں ہوتے تو انہیں فوری طور پر کسی اچھے حکیم کی ضرورت ہے۔۔۔

اس کے بعد ہے کلچرل انڈاکٹرنیشن کی صورت میں جدت کے نام پر بدلباسی یہ وہ چیز ہے جسے جدت کا نام دے کر ماڈرنزم کا نام دے  کر مرد کو گندی نظر کا طعنہ دے کر اوور کوٹ کر دیا جاتا ہے (میں یہاں پر 18+ بھی نہیں لکھوں گا کہ ضرورت سے زیادہ بالغ ہم پہلے ہی  ہو چکے ہیں اب ضرورت ہے ننگے جسموں کی عادی آنکھوں کو ننگا آئینہ دکھایا جائے) یہ ایک حقیقت ہے کہ جالی نما باریک لباس سکن ٹائٹ جینز اور پاجاموں میں بمشکل گھسیڑی گئی ٹانگیں،اور جسم کی تھرتھراہٹ تک واضح کرتے چمٹے ہوئے لباس جسم چھپانے نہیں ،دکھانے کے کام آتے  ہیں ۔مزید اگر ایسے ہی کپڑوں میں  کچھ احساس کمتری کی ماری خواتین ہمارے بازاروں میں پبلک پلیسز پر،بائکس پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھی ہوں(یہ صرف ایک مثال شاید اس سے زیادہ لکھ نہ سکوں لیکن سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں )تو اس اور ایسی بہت سی چیزوں اور حرکتوں کا کسی بھی  صحتمند بندے کے جذبات کو مشتعل کرنا ایک قدرتی اور طبعی امر ہے۔۔اس کے بعد اس ہیجان انگیزی میں مزید تیل پھینکنے کے لیے سوشل میڈیا نیٹ ورکس جن میں  سر فہرست ٹاک ٹاک ہے جس پر۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply