بنگلہ دیش ۔ آزادی سے ترقی تک (قسط 8)۔۔۔وہاراامباکر

بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان چٹاگانگ کے ریڈیو پر 26 مارچ 1971 میں کیا گیا تھا۔ اس سے دو روز بعد یہ اعلان کیا گیا کہ میجر ضیا نے نئی حکومت بنا لی ہے جس میں صدر کا عہدہ ان کے پاس ہے۔ جلد بازی میں کی گئی یکطرفہ حرکت کی وجہ سے ان میں اور مجیب میں اختلاف پیدا ہوئے اور مجیب نے اس بات کو دل میں رکھا۔ بنگلہ دیش کی سیاست پر اس نے بعد میں دہائیوں تک اثر ڈالا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کا یہ ایکشن پسند نہیں کیا گیا، ضیاء اس سے پیچھے ہٹ گئے۔ اگلے مہینے عوامی لیگ کی میٹنگ کلکتہ میں ہوئی جس میں مشرقی پاکستان سے فرار ہونے والے راہنما شریک تھے۔ 17 اپریل کو “مجیب نگر” حکومت کا اعلان ہوا جس میں مجیب کو صدر بنا دیا گیا۔ اس حکومت کو دنیا میں سب سے پہلے بھوٹان اور انڈیا نے 6 دسمبر کو تسلیم کیا۔ اس سے دس روز کے بعد جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دئے تو یہ بنگلہ دیش حکومت پہلے سے موجود تھی، اگرچہ اس کے ممبران ڈھاکہ میں 22 دسمبر کو آئے۔ پاکستان نے انڈین آرمی کے آگے 16 دسمبر کو منعقد ہونے والی تقریب میں ہتھیار ڈالے۔ اس تقریب میں میں نہ ہی بنگلہ دیش آرمی اور نہ ہی مکتی باہتی کی طرف سے کسی نے شرکت کی۔ اس تقریب کو بنگلہ دیش میں فاتح کی طرف سے ذلت آمیز طرزِعمل سمجھا گیا اور اس نے بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات خراب کرنے میں کردار ادا کیا۔

پاکستان کے نوے ہزار جنگی قیدی بنے۔ 195 پاکستانیوں کو بنگلہ دیش نے رکھ لیا جن میں زیادہ تر فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا ارادہ تھا (ایسا نہیں کیا گیا اور ان کو بعد میں واپس کر دیا گیا)۔ بنگلہ دیش کے 28000 ملٹری پرسنل پاکستان کے پاس تھے جو مغربی حصے میں رہ گئے تھھے۔ بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے مختلف معاہدوں کے تحت ان سب کو اگلے چار برسوں میں واپس کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بنگلہ دیش بنا تو مجیب جیل میں تھے۔ ان کو 25 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر فوجی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا تھا اور سزائے موت سنا دی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد نہ کرنے کیلئے یحیٰی حکومت سے کئی ممالک نے درخواست کی تھی۔ پاکستان کے ہتھیار ڈال دئے جانے اور جنگ بندی کے بعد یحیٰی نے اقتدار چھوڑ دیا۔ مغربی پاکستان میں سویلین حکومت بھٹو کی سربراہی میں برسرِاقتدار آ گئی۔ اس حکومت نے مجیب کو رہا کر دیا اور ڈھاکہ جانے کی اجازت دے دی۔

مجیب 10 جنوری 1972 کو ڈھاکہ پہنچے۔ ایک فقیدالمثال استقبال ان کا منتظر تھا۔ مجیب نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور دو سال بعد وزیرِاعظم بنے۔ ملک کا آئین جلد بنایا گیا اور 4 نومبر 1972 کو منظور ہوا جس میں پارلیمانی طرزِ حکومت تھا۔ آئین میں وہ اصول تھے جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی ریاست کو چلنا تھا۔ یہ مجیب ازم (مجیباد) کہلایا۔ اس کے چار ستون نیشنلزم، سوشلزم، سیکولرزم اور ڈیموکریسی تھے۔

آنے والے سالوں میں مجیب نے بنگلہ دیش میں اپنے کہے ہر اصول کو پامال کیا۔ آئین، آزادی اظہار، قانون کی حکمرانی، اختلاف کا حق، ملازمت کے مواقع میں برابری ۔۔۔۔ مجیب کے بنگلہ دیش میں اس سب کی جلد ہی دھجیاں اڑا دی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجیب جس ملک واپس آئے تھے، وہ خانہ جنگی کے زخموں کا شکار تھا۔ جو کچھ ہوا تھا، وہ بیان سے باہر تھا۔ اس آبادی کی بحالی کے لئے ٹرانسپورٹ اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا تھا۔ امن و امان بکھر گیا تھا۔ گوریلا جنگ لڑنے والے گروہ اب مسلح تھے اور حکومت کے قابو میں نہیں تھے۔ کئی بنگلہ دیش کی آرمی میں آ گئے لیکن کئی ایسے تھے جنہوں نے ہتھیار ڈال دینے کی اپیل سنی ان سنی کر دی۔ مسلح گروہوں نے اپنے علاقے بنا لئے۔ حکومت کو جمہوریت معطل کر دینا پڑی۔

جنہوں نے آزادی کے لئے جدوجہد کی تھی، مجیب نے اپنے ان ساتھیوں کو اہم عہدے فوج اور حکومت میں دئے۔ یہ کوتاہ نظر سوچ نئی قوم کے لئے بہت مضر ثابت ہوئی۔ پاکستان سول سروس سے آنے والوں کی مہارت سے یہ ملک محروم ہو گیا۔ وہ بنگالی جو مغربی پاکستان میں پھنسے رہ گئے تھے اور بنگلہ دیش بننے کے بعد پہنچے، ان سے تعصب برتا گیا۔ فوج میں ان کی ترقی روک دی گئی۔ اچھے عہدے نہیں دئے گئے۔ “پاکستان سے آنے والے” اور “آزادی کے لئے لڑنے والے” دو گروہوں میں بٹ گئے۔ پاکستان سے آنے والے مجیب کے لئے زیادہ سپورٹ نہیں رکھتے تھے۔ “وفاداری ادارے سے ہے، شخص سے نہیں” کی روایت پر یقین رکھتے تھے لیکن نئے بنگلہ دیش میں یہ اصول نہیں تھا۔ مجیب نے ذاتی فورس نیشنل ڈیفنس فورس کے نام سے بنائی جس کے ممبران نے ذاتی وفاداری کا حلف اٹھایا۔

انڈیا اور سوویت یونین سے فیاضانہ بیرونی امداد ملنے کے باوجود خوراک کی قلت تھی۔ کرپشن اور چوربازاری عروج پر تھی۔ مجیب نے سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کو وارننگ دی اور ان کے خلاف مہم اپنی ذاتی فورس کے ذریعے کی۔ قرابت داری اور کرپشن اس دور کا نشان بن گئے۔

اقتصادی پالیسیاں بھی غیردانشمندانہ رہیں۔ تجارتی اور صنعتی ادارے قومیا لئے گئے جس نے بنگلہ دیش میں کاروبار کرنے کے رجحان کو ختم کر دیا۔ چونکہ بنگلہ دیش بننے کی وجہ زبان کی تحریک تھی۔ اس لئے بنگلہ زبان کو زبردستی نافذ کیا گیا۔ انگریزی کی جگہ اس کو تعلیم اور حکومت کی زبان بنانے کا مطلب یہ نکلا کہ بنگلہ دیش عالمی معیشت سے کٹ گیا۔

زیادہ تر بنگلہ دیشی اپنی قوم کے بانی (بنگلہ بندھو) مجیب کی عزت کرتے تھے۔ جب پہلے انتخابات 1973 میں ہوئے تو عوامی لیگ نے 289 میں سے 282 نشستیں حاصل کیں۔ انتخابات کی بعد حالات ابتر ہو گئے۔ بنگلہ دیشی عوام انڈیا کے ساتھ دوستی کے حق میں بھی نہیں تھے۔ سیلاب اور قحط مزید مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ امن و امان بگڑ رہا تھا۔

جنوری 1975 میں آئین میں ترمیم کر کے مجیب نے خود کو صدر بنوا کر تمام ایگزیکیٹو اختیارات لے لئے۔ تمام سیاسی جماعتیں ختم کر دی گئیں۔ بنگلہ دیش کو ون پارٹی سٹیٹ قرار دے دیا گیا۔ عوامی لیگ کا نام بدل کر بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ (مزدور کسان اور عوامی لیگ) کر دیا گیا۔ تمام سرکاری ملازمین کے لئے اس پارٹی کی ممبرشپ لازم قرار پائی۔ بنیادی حقوق معطل ہو گئے۔ بنگلہ دیش ذاتی ڈکٹیٹر شپ بن گیا۔

مجیب اور ان کے کچھ اہلِ خانہ کو 15 اگست 1975 کو آرمی کے کچھ نوجوان افسروں نے قتل کر دیا۔ (اس کو میجروں کی بغاوت کہا جاتا ہے)۔ کچھ کو فوج سے نکالے جانے کا ذاتی رنج تھا۔ لیکن یہ فوج کے بڑے حصے کے جذبات تھے جو مجیب کی ذاتی فورس سے اور سیاسی کرپشن سے نالاں تھے۔ اس وقت تک مجیب کی مقبولیت گر چکی تھی اور حیرت انگیز طور پر اس پر عوامی ردِ عمل بہت زیادہ نہیں آیا۔

مجیب کے قتل کئے جانے کے اگلے روز ہی پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد ملک تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے تسلیم کئے جانے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے پچاس ہزار ٹن چاول اور کپڑوں کا تحفہ بنگلہ دیش بھیجا۔ نئے آنے والوں نے مجیب کے حامیوں سے بدلہ لیا۔ مجیب کے وفاداروں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک میں اگلا تختہ اسی برس 3 نومبر کو بریگیڈئیر خالد مشرف نے الٹا۔ ایک چیف جسٹس کو صدر بنا دیا۔ خود کو جنرل بنا لیا۔ مجیب سے وفادار خالد مشرف جلوس لے کر مجیب کے گھر تک گئے۔ اس سے اگلا تختہ چار روز بعد ہی 7 نومبر کو الٹا دیا گیا جب لیفٹ ونگ لیکن اینٹی سوویت اور اینٹی انڈیا پارٹی سے تعلق رکھنے والے فوجیوں نے ڈھاکہ کینٹ میں حملہ کر کے خالد مشرف کو مار دیا۔ صدر چیف مارشل لاء ایڈمسٹریٹر بن گئے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرنے والے ضیاالرحمان ان کے نائب بن گئے۔ ضیاالرحمان اس کے ساتھ ہی وزیرِ خزانہ، وزیرِ صنعت، وزیرِ انفارمیشن، وزیرِ داخلہ اور آرمی چیف آف سٹاف بھی بن گئے۔

ضیا نے نومبر 1976 میں خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ صدارتی انتخاب منسوخ کیا۔ ریفرنڈم کروایا جس میں 98.9 فیصد ووٹ حق میں لئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ ضیا کو ایک بے رحم لیڈر سمجھا جاتا ہے لیکن عام رائے یہ ہے کہ ان کی تاریخ کے سب سے بہترین لیڈر رہے ہیں۔ بہت محنتی اور ملک بھر میں لوگوں سے براہِ راست رابطہ کرنے والے جنہوں نے “امید کی سیاست” کی بنیاد ڈالی۔ مصالحانہ پالیسیاں اپنائیں۔ قرابت داری کو ختم کیا۔ ملک کی پیداور اور معیشت بہتر ہوئی۔ ملک کی سمت “مجیب ازم” سے تبدیل کی۔ انڈیا پر انحصار ختم کیا۔ سارک کی تنظیم بنانا ان کا آئیڈیا تھا۔ ملک میں بغاوتیں جاری رہیں۔ بوگرہ میں اور پھر ڈھاکہ میں بغاوت ہوئی جس میں ان پر حملہ کیا گیا جو ناکام رہا۔ اس کے نتیجے میں فوج میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ دو سو فوجی افسران کو سزائے موت دی۔ سینئیر افسران کو برطرف کیا۔ اپنی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بنائی۔ انتخابات 1979 میں کروائے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش کی آرمی کے دو سابق سربراہوں کی قیادت میں قائم سیاسی جماعتوں کا کا آمنا سامنا تھا۔ ضیا نے اس میں مکتی باہنی کے لیڈر کرنل عثمانی کی پارٹی کو شکست دی۔
ضیاالرحمان کو 30 مئی 1981 میں قتل کیا گیا۔ جس کا الزام میجر جنرل منظور پر لگا۔ اس بغاوت کو میجر جنرل ارشاد نے کچل دیا اور جنرل منظور کو مار دیا گیا۔ بہت سے فوجی افسران کو سزائے موت ملی۔ چھ ماہ میں انتخابات کا وعدہ تھا۔ خیال تھا کہ اس بار مقابلہ ضیا کی بیوہ خالدہ ضیا اور مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے درمیان ہو گا لیکن لیکن ملک میں جلد ہی جنرل ارشاد نے مارشل لاء لگا کر اقتدار سنبھال لیا اور 1990 تک صدر رہے۔

خالدہ ضیا، حسینہ واجد اور جماعتِ اسلامی کے مارشل لاء کے خلاف تحریک چلانے پر اور شدید ہنگاموں کے سبب انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان کے ہٹنے کی وجہ فوج کی حمایت سے محروم ہو جانا تھا۔ اقتدار سے ہٹتے ہی یہ سیدھے کرپشن کے الزامات میں جیل گئے۔ کرپشن کے دو الزامات ثابت ہونے پر سات سال جیل میں رہے۔ جیل سے ہی انتخابات میں حصہ لیا۔ 1991 اور 1996 میں پانچ حلقوں پر لڑے اور سب پر کامیاب ہوئے۔ بغیر قتل کئے اقتدار سے نکالے جانے والے یہ بنگلہ دیش کے پہلے حکمران تھے۔ یہ بنگلہ دیش کے لئے اہم پیشرفت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنگلہ دیش میں انتخابات کے نتیجے میں 1991 میں خالدہ ضیاء وزیرِاعظم بنیں۔ اس سے اگلا دور بنگلہ دیش کی سیاست میں “لڑتی بیگمات” کا غلبہ رہا۔ خالدہ ضیا دس سال اور حسینہ واجد پندرہ سال وزیرِ اعظم رہیں۔ ہر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے، بائیکاٹ ہوتے رہے۔ ہڑتالیں چلتی رہیں۔ سیاستدان گرفتار ہوتے رہے۔ فوج اور عدالتوں کی مداخلت رہی۔ ملک میں ایمرجنسی لگی۔ بحران آتے رہے۔ کرپشن سر اٹھاتی رہی۔ ملک نے برما سے اہم علاقہ حاصل کیا۔ روہنگیا کے پناہ گزینوں کا بڑے بحران کا سامنا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضیاء الرحمان کی اہلیہ اور دس سال وزیرِاعظم رہنے والی خالدہ ضیا اس وقت کرپشن کے کیس میں جیل میں ہیں۔ ان پر دوسرے کیسز میں غلط دن سالگرہ منانے کا کیس بھی ہے جو وہ ہار گئیں اور اب ان پر پابندی ہے کہ سالگرہ اسی دن منائیں جو ان کے پاسپورٹ پر لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آگ لگانے، ملک کے جھنڈے کی بے حرمتی کرنے، قرضہ معاف کروانے، بم دھماکہ کروانے، آگ لگانے، غداری جیسے بتیس دوسرے کیس چل رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں ان کو نااہل قرار دے دیا گیا اور کاغذات مسترد کر دئے گئے۔ پارٹی قیادت ان کے بیٹے کے پاس آئی۔ سابق جنرل اور طویل عرصے تک مارشل لاء لگانے والے جاتیا پارٹی کے سربراہ جنرل ارشاد اپوزیشن لیڈر بنے۔

ملک کی وزیرِاعظم پچھلے دس برس سے حسینہ واجد ہیں۔ بنگلہ بندھو کی بیٹی ہونا ان کے لئے سیاسی طور پر فائدہ مند رہا۔ البتہ، سیاست کے حوالے سے ان کی پالیسیاں والد سے بالکل مختلف ہیں۔ کئی سال جلاوطنی میں کاٹے۔ دھاندلی، کرپشن، رشوت ستانی کے الزامات لگتے رہے رہیں۔ قتل کے الزام میں ایک بار ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے۔ ان وقت ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ ملک کو شخصی آمریت کی طرف لے جا رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بنگلہ دیش کا شمار اس وقت دنیا میں ترقی کرنے والے تیزترین ممالک میں ہے۔ ساتھ لگی تصویر ڈھاکہ کا رات کو 2018 کا منظر۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply