بیلے پر رات-3،آخری قسط/انجینئر ظفر اقبال وٹو

بھیڑیوں کے غول نے پاس ہی سے اونچی آوازیں نکالنا شروع کر دی تھیں۔ جیسے کہہ  رہے ہوں “جہنم میں خوش آمدید”۔ قائم خان پُھرتی سے اُٹھا تھا اور اندھیرے میں خشک جھاڑیوں کی شاخیں توڑنا شروع کردی تھیں۔ مجھے پتھر اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔ ناصر کو ہم نے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ قائم خان کہہ رہا تھا کہ اگر آگ جلانے سے جنگلی جانور قریب نہیں آئیں گے،لیکن “آگ جلائیں گے کیسے ؟” میں نےپوچھا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی سگریٹ نوش نہیں تھا۔ تب اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کے گیلی ماچس کی ڈبیا کو یوں نکالا جیسے کہہ رہا ہو”یہ راز راز ہی رہتا تو بہتر تھا” لیکن اس وقت جان بچانا پہلی ترجیح تھا۔

گیلی تیلیاں ہمارے کپکپاتے ہاتھوں کی بار بار کوشش کے باوجود آگ نہیں پکڑ رہی تھیں جبکہ جانوروں کی آوازیں تیز ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ہماری حالت اس کمزور کھلاڑی جیسی ہو رہی تھی جس پر آخری گیند پر چھکا لگا  کر اپنی ٹیم کو جتوانے کی ذمہ داری ہو۔بالآخر لاٹری کے ٹکٹ کے طرح ایک تیلی نے آگ پکڑ ہی لی جسے دونوں ہاتھوں کی زرہ کے درمیان ہم خشک جھاڑیوں تک لائے اور آگ سلگنا شروع ہو گئی اور ایک الاؤ  کی شکل میں جھاڑیاں جلنا شروع ہو گئیں۔ قائم خان اس دوران ایک درخت کی موٹی شاخ لئے ہماری حفاظت کے لئے چوکنا کھڑا رہا۔ اس دن زندگی میں پہلی دفعہ سگریٹ نوشوں کی محبت دل میں محسوس ہوئی تھی۔

بڑا امتحان اس آگ کو صبح ہونے تک جلائے رکھنے کا تھا ۔ جتنی دیر ہم نئی خشک جھاڑیاں اور شاخیں ڈھونڈ کر لاتے اس سے پہلے ہی پرانا ایندھن ختم ہو چکا ہوتا اور آگ مدھم پڑ رہی ہوتی۔ ہماری ساوی گھوڑی کی روشنیاں بھی اب مانند پڑ رہی تھیں شاید اس کی بیٹری ختم ہو رہی تھی۔ آسمان پر معمول سے زیادہ ستارے نظر آ رہے تھے۔ میں اور قائم خان فارسٹ مافیا بنے ارد گرد کا سارا ایندھن آگ میں جھونک چکے تھے اور اب ہمیں ایندھن کے لئے آگ سے کافی دورجانا پڑ رہا تھا جو کہ بہر حال ایک خطرناک بات تھی۔ ساتھ ہی وقفے وقفے سے ہم اس پہاڑی راستے کی طرف بھی دیکھ رہے تھے جہاں سے احمد جان اور فیض اللہ کوئی دوتین گھنٹہ پہلے مدد کی تلاش میں یوں نکل گئے تھے جیسے قومی اسمبلی کا امیدوار بھاری دعوؤں کے ساتھ الیکشن جیت کر حلقہ انتخاب سے نکل جاتا ہے۔ انتظار کا ایک ایک پل بھاری ہو رہا تھا۔

پہاڑی راستے سے دو انسانی سائے اچانک نمودار ہوئے تھے اور وہ سیدھا ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ ۔ان کے جسموں کے ساتھ لٹکتی بندوقیں دیکھ کر ہماری سانسیں بند ہو رہی تھیں ۔میں نے قائم خان سے اس خطرے سے نپٹنے کا مقامی طریقہ پوچھا تو اس نے فورا ً کہا”اب جو کرنا ہے انہوں نے ہی کرنا ہے”۔ سائے قریب آنا شروع ہو گئے تھے۔ ہم یہ سوچ کر کچھ حوصلہ محسوس کر رہے تھے کہ ہمارے پاس لٹانے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ یہ احساس کتنا طاقتور ہوتا ہے آج اندازہ ہُواتھا۔ انسان اسی احساس کے ساتھ جان پر کھیل جاتا ہے۔

قریب پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہ ہمارے ساتھی ہی تھے جو کہ پیدل چل چل کر بے حال ہو چکے تھے۔ راستے کا پہلا گاؤں چار سے پانچ کلو میٹر دور تھا اور گاؤں کےلوگوں نے دشمنی کی وجہ سے صبح تک خود آنے سے تو معذرت کر لی تھی مگر ہمارے ساتھیوں کو پہچان کروانے پرہتھیار دے کر واپس روانہ کیا تھا تاکہ وہ مہمانوں کی حفاظت کو صبح تک یقینی بنائیں۔

رات کا اندھیرا چھٹنا شروع ہُوا اور جس کے ساتھ ہی سامنے والے پہاڑ پر بنے گھر سے ایک مرد اور اس کا بیٹا ہمارے لئے قہوے کی چینک اور خشک میوہ جات لے کر آئے۔ انہوں نے رات کو ہمیں دیکھ لیا تھا لیکن ہمیں شغل کرنے والی پارٹی سمجھ رہے تھے اور ساتھ ہی خطرہ محسوس کرتے ہوئے صبح کی روشنی کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ شرمندہ تھے کہ غلط فہمی کی وجہ سے رات کو ہماری مدد کو نہ پہنچ سکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دن چڑھتے ہی گاؤں سے کوئی دس پندرہ مرد ٹریکٹر اور موٹے زنجیر لے کر پہنچ گئے تھے انہوں نے ناشتے کا سامان اور قالین بھی ساتھ لیا ہُوا تھا اور آتے ہی قالین بچھا کر دستر خوان سجا دیا۔ ہم زندہ لوگوں کی دنیا میں واپس آچُکے تھے۔ لوگوں کی دوسری ٹولی ہماری ساوی گھوڑی کو ٹریکٹر سے کھینچ کر پانی سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ منچلے موٹر سائیکلوں پر بھی ارد گرد کی آبادیوں سے پہنچ چکے تھے۔ زور زور سے باتیں ہو رہی تھیں اور مشورے دیے  جارہے تھے مگرساوی گھوڑی ایک انچ بھی  اپنی جگہ سے نہیں ہل رہی تھی ۔ اسکے ٹائروں کی بلندی تک ابھی بھی پانی چل رہا تھا۔پھر کسی نے گاڑی کو ٹریکٹر سے پیچھے دھکیلنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس گاڑی کا فریم دریا کے پیندے میں رکھے ایک بڑے بھاری نوکیلے پتھر (بولڈر) میں پھنسا ہوا تھا جو ہماری جان بچانے کا وسیلہ بنا تھا۔ گھنٹہ ڈیڑھ کی جدوجہد کے بعد گاڑی پانی سے باہر آچُکی تھی اور اسے ٹریکٹر سے کھینچ کر گاؤں تک لے جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ رات سیلابی ریلے میں جلدی سے گاڑی چھوڑنے کے دوران ناصر سے گاڑی کی چابی پانی میں گر گئی تھی اور گاڑی سٹارٹ رہ جانے کی وجہ سے بیٹری جواب دے چکی تھی۔ میں نے احمد جان سے کہا”ایسی صورت میں گاڑی سٹارٹ کرنے کا کوئی مقامی طریقہ تو آزماؤ” اس نے سادگی سے جواب دیا “کیوں نہیں سر” اور پھر ایک اور گاڑی کی بیٹری اور چابی سے اس نے ناقابل یقین طور پر گاڑی پہلی سلف میں سٹارٹ کرلی تھی۔ ساوی گھوڑی ایک دفعہ پھر ہمیں بلوچستان کے پہاڑوں کی سیر کرانے کے لئے تیار تھی۔ (ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply