بریکنگ نیوز

ٹی وی دیکھتے دیکھتے اکثر پروگرام کے درمیان میں کوئی بریکنگ نیوز آ جاتی ہے تو ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں کہ پتہ نہیں کونسا سنسنی خیز واقعہ درپیش آگیا۔ کبھی ڈاکو گھر لوٹ کر لے ‏جاتے ہیں۔ مزاحمت کرنے پر دو چار افراد قتل ہو جاتے ہیں، کبھی بس الٹ جاتی ہے،کبھی گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں اور انسانی جانیں تلف ہو جاتی ہیں، کبھی گیس سلینڈر پھٹ جاتے ہیں ، کبھی ‏جائیداد کے جھگڑوں سے قتل و غارت کی نوبت آ جاتی ہے مگر یہ سب تو روٹین کی خبریں ہیں جن سے ہم چاروناچار سمجھوتہ کر چکے ہیں کیونکہ انکا سد باب نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ ‏اب ہورہا ہے۔‎ اب تو معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ پہلے ظلم تھا اب قیامت ہے۔ پہلے دہشت تھی اب وحشت ہے۔ ہر طرف جنوں ہے، درندگی ہے۔ دردناک اور اذیت ناک واقعات سن کر دل ‏کانپ جاتے ہیں۔ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کلیجے پھٹ جاتے ہیں۔ کبھی کسی پارک میں جہاں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں بم رکھ دیا جاتا ہے۔کبھی ٹریفک جام میں دہشت گرد ‏بیلٹ کھینچ دیتا ہے اور آناً فاناً ہنستی مسکراتی زندگیاں موت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ انسانی اعضاء بکھر جاتے ہیں، گردوپیش کی ہر چیز تباہ ہو جاتی ہے، کبھی بڑے شہروں کی معروف ‏مارکیٹوں میں بم پھٹ جاتے ہیں، کبھی بچوں کی بس اغواء ہو جاتی ہے،کبھی آرمی پبلک سکول کے معصوم بے گناہ بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے،سکول اور یونیورسٹیوں ‏کے طالبعلم ظلم کا نشانہ بنتے ہیں تو ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔‎
میڈیا چار دن شور مچاتا ہے، اظہار افسوس کرتا ہے اور پھر تھوڑے سے شور کے بعد ہم بےبسی اور بےحسی کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ ظلم کی داستانیں جاری رہتی ہیں۔ کبھی بچے گھر سے ‏نکلتے ہیں تو ماں بچوں سے محروم ہو جاتی ہے، کبھی ماں گھر سے نکلتی ہے تو بچے ماں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ نہتے ، بےگناہ مسلمانوں کوکنٹینرز میں بند کر کے موت کے رو برو کر دیا جاتا ‏ہے۔ کبھی طیارہ تباہ ہو جاتا ہے۔ قیمتی جانیں تباہ کر کے نو میں سے سات طیارے ناکارہ قرار پاتے ہیں۔ کبھی مشعال خان کو اذیت ناک موت دے کر اس کی لاش کو بےدردی سے ‏گھسیٹا جاتا ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں۔ قرآن تو اس ظلم کا روادار نہیں ہے۔ ان انتہاپسندوں سے اگر قرآن کے بارے پوچھا جائے تو یہ کچھ نہیں جانتے ‏ہوں گے۔ ان کا کونسا قرآن ہے ، جس کے اندر ان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین درج ہیں۔ خون کی یہ ہولی کب تک کھیلی جاتی رہے گی۔ مجرموں اور ظالموں کی پکڑ کب ہو گی؟ ‏ہمارا خون کب کھولے گا؟ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟ ہم کب تک یہ دردناک کہانیاں صبروتحمل سے سنتے رہیں گے۔ ان مظالم کا ذمہ دار کبھی ایجنسیز، کبھی طالبان، کبھی مقتدر ‏اداروں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔‎ آخر یہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کہاں ہیں؟ یہ پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ ان کو کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ سترہ کروڑ عوام کے ہی اندر ‏یہ لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ ان کو مکمل سکیورٹی اور پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ ان مجرموں کی حفاظت کے لیے اور ان کے مزموم ارادوں کی تکمیل کے لیے عوام کو بےدریغ قتل کیا ‏جاتا ہے‎ ۔جس نے زبان کھولی اسے کچل دیا گیا۔ جو ان کے ناپاک ہتھکنڈوں کی راہ میں رکاوٹ بنا وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
یہ بچے ہمارے ہیں، یہ مائیں اور بہنیں ہماری ہیں۔ مشعال خان اور اس جیسے بہت سے بیٹے جن کے ماں باپ کے دل مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ ہم اس درد سے ناآشنا ہیں۔ ‏ہمارا احساس تو ہمدردی کے چند کلمات سے آگے نہیں جاتا۔ ان کے ماں باپ آگ کی جس بھٹی میں جل رہے ہیں اس کی لپیٹ ہمارے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے‎ ۔کیا مجرموں تک پہنچنا اتنا مشکل ہے۔ ہم پہاڑوں کی سو تہوں میں سے معدنیات، نمکیات، تیل اور قیمتی دھاتیں دریافت کر لیتے ہیں۔ پتھروں کو کاٹ کر شاہراہیں بنا لیتے ہیں، ‏سمندر کی تہوں میں سے قدرت کے انمول خزانے نکال لیتے ہیں۔ دریاؤں کے رُخ موڑ دیتے ہیں مگر ان چیر پھاڑ کرنے والے درندوں تک ہماری رسائی نہیں۔ ان کی قبیح صورتیں ‏نظر آ بھی جائیں، ان بھیڑیوں کے ٹھکانے معلوم ہو بھی جائیں تو ہم اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اندھیر نگری سے نمٹنے کے لیے پختہ ایمان ہونا چاہئے جو مسلمان کی ‏طاقت ہے۔ قرآن کے فیصلے چاہییں۔‎ آئیے ہم متحد ہو کر اپنے ملک کی عزت و ناموس اور جان و مال کو نقصان سے بچا لیں اس سے پہلے کہ اور بیٹے طیارے کی خرابی کی نذر ہوں، کچھ اور بیٹے ہمارے گریبان پکڑ کر ہم ‏سے اپنی جانوں کا حساب مانگیں،کوئی اور مشعال خان درندگی کا شکار ہو،اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو ہمارا نام بھی مجرموں میں شامل ہو گا۔ ہمیں بھی خدا کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر حساب دینا ہو گا، کیونکہ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان کی ‏حفاظت کرنا فرض ہے۔ کاش کہ ہم سدھر جائیں، ہمارے اعمال میں سچائی، ارادوں میں مضبوطی اور ایمان کی طاقت ہو، ہم روتی ، بلکتی چیختی، انسانیت سوز دلگیر آوازوں کی بجائے امن اور آشتی کے عادی ہو ‏جائیں۔ ہمارے کان ترس گئے ہیں ایسی بریکنگ نیوز کو جس میں یہ خبریں سنائی جائیں۔‎ پاکستان میں اسلامی قانون رائج کر دیا گیا ہے، ایجنسیز پر قابو پا لیا گیا ہے،تمام دہشتگردوں کو پکڑ کر اندرون زنداں کر دیا گیا ہے،اصل مجرموں کو سزائے موت سنا دی گئی ہے،قاتلوں کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا ہے،ڈاکوؤں اور چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے ہیں،ہوائی، بحری اور بری سفر محفوظ ہو گئے ہیں،اگر ہمارے ایمان جاگ جائیں تو یہ خواب حقیقت بن سکتے ہیں۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply