پانامہ مشعل خان کی ٹوٹی اُنگلیاں اور مولانا فضل الرحمن
سبط حسن گیلانی
پانامہ کیس کے فیصلے پر مجھے کچھ زیادہ نہیں کہنا۔ نہ ہی اعلیٰ عدلیہ پر کوئی تنقید کرنی ہے۔البتہ فیصلوں سے مرتب ہونے والے اثرات پر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سال گزرے ہمارے گائوں میں دو چچا زاد بھائیوں کے درمیان ایک درخت کی ملکیت پر تنازعہ کھڑا ہوا۔مقدمہ گائوں کے منتخب کونسلر کی عدالت میں پہنچا۔ کونسلر صاحب کی یہ اپنی برادری کا مسئلہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ صادر فرمایہ، کہ درخت جڑوں سے اُکھاڑ دیا جائے، مڈھ محمد صدیق کا اور باقی کا درخت محمد رفیق کا۔ فیصلہ سن کر دونوں فریقین نے خوشیاں منائیں کہ گائوں میں پت رہ گئی۔گائوں کے حلوائی کی مٹھائی خوب بکیِ۔ ڈھول باجے والوں کی دیہاڑی بھی اچھی لگی۔محمد صدیق نے برادری اور گائوں کے اپنے دھڑے والوں کے سامنے پگڑی اونچی کر کے کہا ہم اس حق اور سچ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، مڈھ پر ہمارا حق تسلیم کر کے ہمارے موقف کو سچ مان لیا گیا۔محمدرفیق نے بھی اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوے اعلان کیا، ان چند جڑوں اور مڈھ کی کیا حیثیت ہے، درخت تو اپنے چھانگ سمیت ہمارے حصے میں آیا۔
ہم اس فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔تیس چالیس برس ہوتے ہیں گائوں والوں کو یہ فیصلہ آج بھی یاد ہے۔تو میرے بھائیو بہنوں یہ فیصلہ بھی ایسا ہی ایک شاندار فیصلہ تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔بنیادی طور پر یہ فیصلہ نہ مسلم لیگ ن کے حق میں ہے نہ ہی تحریک انصاف کے حق میں ، یہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہے۔ اس سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اُلٹا اسے نقصان ہو گا۔ جب مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے نیم سول اور عسکری اداروں سے منسلک افسران کے درمیان چار دو یا تین تین کے تناسب سے تقسیم نظر آے گی تو سول اور عسکری اداروں کے درمیان تنائو بڑھے گا۔پہلے منتحب وزیراعظم اعلیٰ عدلیہ کے کٹہرے میں کھڑا رہااب تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہو گا۔ اس سارے ہنگامے میں سارے ملک کا میڈیا کوئی نہ بھولنے والی شے بھول بیٹھا تو وہ مشعل خان کا ظالمانہ قتل ہے۔ مشعل خان کی قبر کی مٹی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سیالکوٹ پسرور میں ایک اور انسان کی جان توہین مذہب کے الزام پر لے لی گئی۔ فضل عباس پر ایک کالعدم مذہبی تنظیم کی طرف سے 2004میں توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔اس نے اس خوف سے ملک چھوڑ دیا تھا۔ 13سال بعد وہ وطن واپس لوٹا تھا کہ شکار کر لیا گیا۔ اس مرتبہ یہ ’’ اعزاز‘‘ کسی مرد نے نہیں تین عورتوں نے حاصل کیا ہے۔
ایک ٹیچر اور دو اس کی شاگردوں نے۔ دیکھیں کب ہمارے میڈیے کو دیگر ضروری کاموں سے فرصت ملتی ہے تو اس طرف بھی توجہ دیتا ہے۔مشعل خان اس الزام میں جان ہارنے والا پہلا انسان نہیں تھا۔ مجھے اس کی جان جانے سے زیادہ اس سلوک پر تشویش اور دکھ ہے جو اس کے بے گناہ قتل کے بعد اس کی لاش کے ساتھ کیا گیا۔ اور یہ سلوک بھی پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا۔ دشمنی میں بندے مار دینا تو ہمارے ہاں صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ لیکن مقتولین کی لاشوں کو ننگاکرنا اور انہیں کچلنا ہماری روایت کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ یہ عرب بدو کلچر ہے جو ہمارے ہاں اس مذہبی جنونیت کی آڑ میں قدم جما رہا ہے۔ بچپن میں دس محرم والے دن اپنے گائوں میں ایک ذاکر کی مجلس یاد آتی ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ امام حسین ع نے اپنے قتل سے پہلے اپنے خیمے میں آ کر اپنی بہن سے پرانا لباس مانگا تھا۔ اور ان کے قتل کے بعد ان کی لاش پر گھوڑے دئوڑائے گئے تھے۔ بعد میں میں نے اپنے چچا سے اس کا سبب پوچھا تھا ، انہوں نے بتایا تھا کہ عرب لوگ اپنے دشمنوں کی لاشوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کرتے تھے، لاش کے ساتھ لباس اور ہتھیار لوٹ لیا کرتے تھے۔لاشوں پر گھوڑے دئوڑا دینا ایک عام سی بات تھی۔ حضرت امیر حمزہ کی لاش کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ امام کے قتل کے بعد جب ان کی کچلی ہوئی لاش پر ان کی بہنوں کو لایا گیا تو لاش پتھروں کے ڈھیر تلے دبی ہوئی تھی۔ یعنی لاشوں کو پتھر مارنا بھی عربوں کی روایت تھی۔
جب امام کی سر بریدہ لاش کو پتھروں کے ڈھیر سے نکالا گیا تو آپ کی بڑی بہن نے بتایا کہ جب میں نے اپنے بھائی کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دینا چاہا تو میں نے دیکھا کہ ہاتھ کی ایک انگلی کٹی ہوئی تھی جس میں انگوٹھی تھی۔ ایسا ہی ایک بیان ہم نے پچھلے ہفتے بھی سنا جب مشعل خان کی والدہ اور بہن نے بتایا کہ جب ہم نے مقتول مشعل خان کے ہاتھوں کو چومنا چاہا تو ہم نے دیکھا کہ اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ مذہب کے نام پر منظم سازش کے تحت پھیلائی جانے والی اس جنونیت کی آڑ میں وحشیانہ عرب بدو کلچر ہمارے چار پانچ ہزار سالہ مہذب کلچر کو تباہ و بربار کر رہا ہے میرے عزیزو۔اور مذہب کے نام پر سیاسی دکان چمکانے والے لوگ اس بربریت کو تحفظ دے رہے ہیں۔ اپنے نبیﷺ کا کلمہ پڑھنے والا ایسا کون کلمہ گو ہو گا جسے اپنے نبیﷺ کی توہین پر خدا نخواستہ کوئی اعتراض نہیں ہوگا؟۔ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو توہین کے اس قانون کو سرے سے ختم کرنے کی بات کر رہا ہو۔ہم تو اس قانون کے غلط استعمال کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ مفتی نعیم اور دوسرے جید علما اب کھلے عام اس کے غلط استعمال کو تسلیم کر رہے ہیں۔
پھر اس کو غلط استعمال کرنے والے کے خلاف کوئی سزا تجویز کرنے والاقانون بنانے میں کیا حرج ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن جیسے مذہبی رہنمائوں کا مشعل خان کے بے گناہ قتل پر اپنے لب بند رکھا اور بہت دیر بعد دبے لفظوں میں نیم دلی سے مذمت کرنا اور ساتھ ہی اونچے سروں میں اس قانون پر کوئی مزید قانون سازی نہ ہونے دینے کا اعلان کرنے کا کیا مطلب ہے؟۔ مطلب بہت واضع ہے۔ وہ مذہب کے نام پر اشتعال کو اپنی قوت سمجھتے ہیں جسے پاکستان کے قانون پسند اور پرامن شہری اپنے معاشرے کے لیے زہرقاتل سمجھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں