ایسے ہیں عقیل عباس حعفری۔۔اظہر عزمی

بعض افراد دل میں میں ایسے شوق پال لیتے ہیں جس میں ملنا ملانا کچھ نہیں بلکہ جیب سے ہی جاتا ہے۔ فی زمانہ ان میں سے ایک کتابوں کی اشاعت ہے۔ کچھ لوگ ساری زندگی اپنی پروموشن میں لگے رہتے ہیں۔ دوسروں کی جائز تعریف و توصیف کرنے کا کہو تو زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کرنی پڑ جائے تو چھالے پڑ جاتے ہیں۔ چہ جائیکہ ان کی کتابیں شائع کی جائیں۔ خیر سے یہ دونوں خرابیاں محقق ، شاعر ، ادیب ، ناشر اور پتہ نہیں کیا کیا کے حامل عقیل عباس جعفری میں بدرجہ اتم بلکہ بدرجہ کٹم پائی جاتی ہیں۔

اب کوئی عقیل عباس جعفری سے پوچھے کہ بندہ خدا، اپنے ڈھنڈورچی بنو، اپنا مال بیچو۔ یہ دوسروں کو کھود کھود کے نکالنے میں کیوں لگ گئے۔ اللہ نے ٹیلنٹ دیا ہے۔ اچھی نثر لکھ لیتے ہو، شاعری میں اچھی بر محل، زرخیز زمینیں نکال لیتے ہو۔ نامعلوم افراد لکھتے ہو تو سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس نے لکھا ہے۔ اسمبلی میں تذکرہ ہوتا ہے۔ شہرت کی اسمبلی لائن میں آجاتے ہو۔ ان زمینوں پر ذہن کے ہل چلاؤ، بحر کے بیج ڈالو۔ باروں مہینے کاشت کاری کر کے منافع کی فصل پاؤ۔ کیوں تحقیق کے گورکھ دھندے میں پڑتے ہو۔ پرانی کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ کاہے اتنا کشت اٹھائے ہو۔ آپ کچھ بھی کر لیں سمجھنا تو دور کی بات یہ سننے والے بھی نہیں۔ Chronic Patient ہیں اور اب اس عمر میں ان کا علاج ممکن بھی نہیں۔

عقیل عباس جعفری کی “عقیلیت” کوئی نئی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مرض کے جراثیم ان میں پیدائشی تھے۔ گھر والوں نے چھوٹپن میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے تو ان کو لگوائے ہوں گے۔ بازو پر دو چار نشانات بھی ہوں گے مگر اس مرض کے ٹیکے نہ تو اس وقت دستیاب تھے نہ اب ہیں۔ پہلے یہ معلومات عامہ کے چکر میں پڑ گئے۔ یہ اصل میں دوسروں سے متعلق جانکاری دینے کے کاری مرض کا آغاز تھا۔ یہ مرض کیونکہ بڑا ڈھکا چھپا ہوتا ہے اس لئے مریض خود بھی لاعلم ہوتا ہے اور معلومات کا خزانہ جمع کر کے بڑے مزے میں ہوتا ہے بلکہ سیدھی سیدھی بات ہے نشے میں ہوتا ہے جو اندر ہی اندر سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ سو سرائیت کرتا گیا ۔ گھر والوں کو جب ان کی کتاب گھسنی طبیعت کا اندازہ ہوا تو طبیبوں کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے دیکھتے ہی ہاتھ اٹھا لئے اور ایک ہی بات کہی “دوا تو چھوڑیں اب جراحت سے بھی کچھ نہیں ہونے والا “۔ دعا تعویذ والوں کے پاس لے گئے تو انہوں نے لکھ کر دے دیا کہ ہم لکھنے پڑھنے والوں کے لئے نہ تو کوئی تعویذ لکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی پڑھائی کرتے ہیں۔

معلومات عامہ کے چکر میں انہیں معلوم ہوگیا کہ یہاں بھی بڑے بڑے ہاتھ دکھانے والے موجود ہیں مگر یہ معلومات عامہ کے میدان میں بارہویں کھلاڑی سے ایک دن اوپننگ بیٹسمین بن گئے ۔ دماغ کے پھاوڑے سے کام نہ چلے تو تحقیق کی کھرچی سے یہ معلوم کرتے رہے کہ کون کب ، کہاں پیدا ہوا ؟ کیوں اور کیسے مرا ؟ یہ آخری الفاظ کس کے تھے ؟ پتہ نہیں کیا کیا اور کس کس کو کھود کر نکالتے رہے۔ بیچلرز آف آرکیٹکچر بن گئے تھے اچھی جگہ ملازمت کرتے مگر یہ لگ گئے اردو زبان کی لفظیات اور ساختیات میں۔ مٹی کا اثر تو آنا تھا۔ پرکھوں نے عرب سے ہجرت کے مختلف زمان و مکان طے کر کے آگرے کو مستقر بنایا تھا جہاں کہ اسد اللہ خاں غالب تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ دو ایک نسلوں سے عقیل عباس جعفری کے بڑے بلرام پور جا بسے تھے۔

عقیل عباس جعفری تو خیر پکے کراچی والے ہیں ۔ لکھنے لکھانے کا عارضہ بچپن سے تھا ۔ ایم اے جرنلزم کر بیٹھے ۔ “مرض بڑھتا گیا جوں  جوں دوا کی” کے مصداق اب مریض کی شفا یابی کے کوئی آثار باقی نہ بچے تھے ۔ معلومات عامہ میں تو خیر جو گل کھلانے تھے وہ کھلا دیئے ۔ اسلام آباد پہنچے تو اور کھل اٹھے ۔ پاکستان کی سیاست میں “پاکستان کے سیاسی وڈیرے” لکھ کر ہلچل مچا دی اور ملکی سیاست میں سیاسی وڈیرے کی اصطلاح بھی متعارف کر دی۔ کوئی شبہ نہیں کہ اپنے مزاج کے مطابق انہوں نے یہ کام بہت ٹھوک بجا کر   کیا تھا۔ یہ کتاب معلوماتی اور تہلکہ خیز ہونے کے ساتھ وزن میں بھی اتنی ہے کہ آپ با آسانی دیوار میں کیل ٹھونک دیں۔ یہ کتاب جب آئی تو ہماری جیب میں سنگل پلیٹ نہاری اور دو روٹی کے پیسے بطور عیاشی بمشکل نکل پاتے ،ایسے میں یہ کتاب کہاں سے خریدتے۔ جب کوئی اسٹال لگتا تو خاموشی سے کھڑے کھڑے دو چار صفحے پی جاتے ۔

عقیل عباس جعفری کا دل نہیں بھرا تو ہاکستان کی ناکام سازشیں اور پاکستان کی انتخابی سیاست کے نام سے دو کتابوں کے مالک و مختار بن گئے ۔ چین سے بیٹھنے والے تو کبھی  نہیں تھے ۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق پاکستان کرونیکل (پاکستان کی تاریخ وار عوامی انسائیکلوپیڈیا) کا آغاز کر بیٹھے جو ہنوز جاری ہے۔ پہلے عرض کیا کہ بچپن سے Chronic ہیں تو پھر اس جان جھوکم کے کام میں ان کے علاوہ کون ہاتھ ڈالتا۔ ملٹی ٹاسکر ہیں۔ آج کل بی بی سی کی ویب سائٹ  پر آرٹیکل سپرد قلم کر رہے ہیں۔ شاعری کا عارضہ بھی پرانا ہے۔ اخبارات میں فیچرز بھی لکھتے رہے اور ایوارڈز بھی گلے پڑتے گئے جن میں APNS سے بہترین فیچر نگار، ریڈیو پاکستان سے بہترین نعت گو اور بہترین قومی نغمہ نگار ایوارڈز شامل ہیں۔

عقیل عباس جعفری بہت حلیم الطبع قسم کے آدمی ہیں۔ بالکل بھی بریانی المزاج نہیں۔ میرا مقصد ہے کہ چٹ پٹی باتیں کم کم کرتے ہیں لیکن جب بھی کرتے ہیں بہت بر محل ہوتی ہیں۔ سنا ہے جوانی میں بڑے “جملے پھینک” ہوا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ حشمت اللہ لودھی ایک کوئز پروگرام میں میزبان تھے۔ آپ بھی صف اوّل میں موجود تھے۔ حشمت اللہ لودھی نے سوال کیا: بتایئے وہ کون سا جانور ہے جس سے جنگل کا بادشاہ شیر بھی ڈرتا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے جواب آنے سے قبل برجستہ کہا: شیرنی اور تقریب کشت زعفران بن گئی۔ حشمت لودھی نے کہا: جواب تو خیر ایک کانٹے دار جانور سا ہے لیکن حسب حال شوہر یہی جواب صحیح الصحیح ہے۔

مشاعروں میں جاتے تو جو شاعر مشاعرہ نہ لوٹتا۔ ان کا ہوٹر گروپ اس کی بڑی لفظی کوٹ مار کیا کرتا ۔ ایک دفعہ 80 کی دہائی کی ابتدا میں آرٹس کونسل کراچی میں مشاعرہ تھا۔ حیدر  آباد سے ایک شاعر آئے اور ایک نہ ختم ہونے والی شاعری کے گھوڑے پر سوار ہو کر سامعین کے ذہنوں پر چابک ماری کرنے لگے۔ اللہ اللہ کر کے جب وہ گئے تو ناظم مشاعرے نے حیدرآباد سے تشریف لانے والے شاعر کا رسماً  شکریہ ادا کیا اور بہت احتیاط سے طوالت کی طرف بھی اشارہ کر  دیا۔ عقیل عباس جعفری کہاں چپکے رہنے والے تھے۔ جملہ لگا دیا : اور بنوایئے سپر ہائی وے۔

یہ دہشت گردی کے پُر آشوپ دور میں بھی کتاب گردی کے شوق سے باز نہ آئے۔ کون سا ایسا پرانی کتابوں کا ٹھیلہ  ہے، بازار ہے جو ان کے قدموں کی چاپ سے واقف نہ ہو۔ ایک دن کہنے لگے: میں کتاب کو نہیں ڈھونڈتا اب کتاب مجھے ڈھونڈ لیتی ہے۔ پرانی کتابوں کے بازار جاؤں تو کتاب فروشوں کے چہرے دیکھ کر دِلی کے میر یاد آجاتے ہیں۔

یوں پکاریں ہیں مجھے کوچہ کتاباں والے

میں نے کہا: میری دعا ہے کہ معاملہ کتاب سے کتابی چہروں تک نہ پہنچے تو ہنس کر بولے “آپ کو پتہ ہے میں وہ پرانی کتابیں ڈھونڈتا ہوں جن کا کور بھی نہیں ہوتا”۔ کون سی لائبریری ہے، کون سا ایسا آرکائیو سیکشن ہے کہ جس کے کونوں کھدروں میں یہ نہ گھسے ہوں۔ جہاں ان کی تحقیق و جستجو نے ڈیرے نہ ڈالے ہوں ۔ دسمبر 2016 سے دسمبر 2019 تک اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ  بنے اور بڑے اعلی کام کئے۔ اب اپنا پبلشنگ کا ادارہ “ورثہ” کھولے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تحقیقی کتاب آئی تو اس کو “تبرک ایڈیشن” کا نام دے کر مفت تقسیم کردیا۔ مجھے ایک کتاب تو دے دی جب ایک صاحب کے لئے اور مانگی تو بولے کہ ابھی دیئے دیتا ہوں۔ گاڑی میں موجود ہے۔ میں نے کہا: مفت اور پوچھ پوچھ”۔

عقیل عباس جعفری بالکل بھی Selfish نہیں جو چاہے ان کے ساتھ Selfie بنوا لے اور فیس بک پر  اپ لوڈ کر دے ۔ عقیل عباس جعفری بہت سادہ مزاج ہیں لیکن کوئی بات خلاف مزاج و اصول ہوجائے تو اسی وقت حساب چلتا کر دیتے ہیں ۔ اتنے سارے کام پر اتنی سادگی سے ملتے ہیں کہ عام آدمی کا گمان ہوتا ہے اور یہی ایک خاص آدمی کی پہچان ہوتی ہے۔ مختار صدیقی کے مشہور شعر کا پہلا مصرعہ یاد آرہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نکتہ وروں نے  گُر یہ سکھایا ، خاص بنو  اور عام رہو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply