کینسر (12) ۔ انیستھیزیا/وہاراامباکر

میتھیو بیلی نے ٹیومر کو جدید سرجری سے نکالنے کی انٹلکچویل بنیاد رکھی۔ اگر طبِ یونانی کا سیاہ سیال موجود نہیں تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ جالینوس کا یہ کہنا کہ سرجری سے ٹیومر کو ہٹا کر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، بھی ٹھیک نہیں تھا۔ سرجری ابھی ایسے آپریشن کے لئے ٹھیک سے تیار نہیں تھی۔ سکاٹ لینڈ کے سرجن (اور بیلی کے ماموں) جان ہنٹر نے اپنے مریضوں کے ساتھ یہ سرجری شروع کی تھی۔ انہوں نے لاشوں اور جانوروں کے ساتھ اس کی لمبی تیاری کی تھی۔ ہنٹر نے لکھا، “اگر ٹیومر قدرتی طور پر ہلتا ہو تو اسے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ مزید ٹیومر نہ بن گئے ہوں جو پہنچ سے باہر ہوں ورنہ دھوکا ہو سکتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہنٹر نے پہلی بار ٹیومر کو مختلف سٹیج میں تقسیم کرنا شروع کیا۔ “ہلنے والے ٹیومر” ابتدائی سٹیج کا مقامی کینسر تھا۔ “نہ ہلنے والے ٹیومر” ایڈوانسڈ سٹیج کا، جو ممکنہ طور پر دوسری جگہوں پر پہنچ گیا تھا۔ ہنٹر کے خیال میں صرف ابتدائی سٹیج کے کینسر کو سرجری سے نکالنا چاہیے۔ ایڈوانسڈ سٹیج والے مریض کو ہنٹر کے مطابق “ہمدردی کی ضرورت ہے”۔
ہنٹر اپنے وقت سے آگے کے انتھک محنت کرنے والے غیرمعمولی اناٹومسٹ اور سرجن تھے۔ تمام وقت لاشوں پر تجربات کرتے۔ بندر، شارک، والرس، فیزنٹ، ریچھ اور بطخوں پر سرجری کی۔ لیکن مریض کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ الکوحل اور افیم دے کر کئے جانے والے یہ آپریشن خطرے سے خالی نہیں تھے۔ پرسکون لاش کے برعکس مریض چیخ و پکار کرتے تھے۔ سرجری کے بعد انفیکشن کا خطرہ تھا۔ آپریشن ٹیبل کے بعد مرنے والوں کی شرح بہت بلند تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجری کے شعبے کے لئے دو انقلابی دریافتیں 1846 سے 1847 کے درمیان ہوئیں۔ پہلی دریافت اینستھیزیا (مصنوعی بے ہوشی) کی تھی۔
آپریشن تھیٹر ایک تفریح کے تھیٹر کی طرح کا شو ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے اس کا نام تھیٹر رکھا گیا تھا۔ (چند جگہوں پر اب اس کا نام آپریشن روم کر دیا گیا ہے)۔ بالکونی سے طلبا اور تماشائی دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوا کرتے تھے۔
امریکہ میں میسی چیوسٹس جنرل ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں 16 اکتوبر 1846 میں ہونے والی ایک سرجری میں دیکھنے والوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ صبح دس بجے ڈاکٹروں کا ایک گروپ کمرے میں جمع تھا۔ بوسٹن کے ایک دندان ساز ولیم مورٹن نے شیشے کا ایک چھوٹا ویپورائزر نکالا۔ اس کی نوزل کھولی اور مریض ایڈورڈ ایبٹ کو اسے سونگھنے کے لئے کہا۔ مریض نے چند سانس لئے اور کچھ دیر بعد گہری نیند کی حالت میں چلا گیا۔ ایک سرجن نے ایبٹ کی گردن پر نشتر چلایا۔ ایک سوجا ہوا پھوڑا کاٹ دیا اور زخم کو ٹانکے لگا کر سی دیا۔ چند منٹ بعد جب ایبٹ کی آنکھ کھلی تو انہوں نے کہا، “اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ آپریشن جاری ہے لیکن مجھے ذرا بھی تکلیف نہیں ہوئی”۔
اینستھیزیا کی اس دریافت نے تکلیف کو سرجری سے باہر نکال دیا۔ اب سرجن طویل آپریشن کر سکتے تھے۔ کئی گھنٹوں کے بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا مسئلہ انفیکشن تھا جو انیسویں صدی کے وسط میں سرجری کے بعد ہو جانا عام تھا اور یہ مہلک ثابت ہوتی تھیں۔ ان کی وجہ نامعلوم تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply