عید اور ہمارے آزاربند۔۔عارف خٹک

اللہ بخشے دادی حضور کو،جس دن آخری روزہ ہوتا تھا وہ اپنا ٹین کا صندوق کھول کر آخروٹ کی خشک چھال نکال لیتی،جس کو دانداسہ کہا جاتا تھا۔ بہوؤں کے اوپر احسان عظیم کرکے انگلی برابر دانداسہ دیتی کہ جاؤ  اپنے دانتوں پر مل لو دانت بھی صاف ہوجائیں گے اور ہونٹ بھی لال ہوجائیں گے۔ خود مہندی کی تھال نکال کر دادا حضور کی داڑھی اور سر کے بال رنگنا شروع کردیتی اور بعد میں بچی کچی مہندی اپنے سفید بالوں پر مل لیتی تھی۔

الغرض چاند رات پورا گاؤں ملنے میں جتا ہوتا تھا۔ کوئی بالوں پر مہندی ملتا تھا، کوئی ہونٹوں پر دانداسہ ملتا، کوئی اپنی  منکوحہ کے منہ سے منہ ملتا اور جن کے بستر خالی ہوتے یا کنوارے ہوتے وہ صرف ہاتھ ملتے۔

اگلی صبح بیویاں بعد از نماز شوہروں اور بچوں کو کچی مٹھائیاں کھلا کر، اپنے چہروں پر ٹالکم پاوڈر مل لیتیں  اور لپ اسٹک اپنے رخساروں پر کہ رخسار بشکل انگارہ دہکتے رہیں،نئے کپڑے پہن کر کچے صحن میں پلاسٹک کے چپل پہن کر اتراتی پھرتیں اور شوہر خواب ناک نظروں سے ان کو تکتے رہتے کہ جلد از جلد بچوں کو عیدی دیکر اپنی بیوی کو کس کر گلے لگا سکیں ،کیونکہ پورا سال ڈھور ڈنگروں کے آپلوں سے لتھڑی بیویاں آج پڑوس کی بیویاں لگتیں اور مزید پُرکشش ۔

نوجوان لڑکیاں اپنے محبوب کو سفید رومال پر کڑھائی کرکے لال دھاگوں سے دل کا نشان کاڑھ کر اور دل کے بیچ ایک تیر آر پار کرکے محبوب کو اپنا حال دل سنانے کو بے تاب ہوتیں۔ یا محبوب کو نسوار کی ایک گول ڈبیہ جس میں شیشہ لگا ہوتا تھا تحفتا ً دیتی کہ محبوب کیلئے دنیا میں سب سے قیمتی شئے نسوار ہی ہوتی تھی۔

بعد از نماز مغرب جب کہیں آس پاس گاؤں سے فائرنگ کی آوازیں نہ آتیں ، تو عید کی کنفرمیشن کیلئے لوگ پہاڑوں میں واقع دور دراز گاؤں سے نوجوان پارٹیاں پانچ دس کلومیٹر دور مرکزی بازار  آجاتے اور کچھ لوگ چندہ ڈال کر ایک پک  اپ ہائیر کرکے بنوں کی طرف نکل جاتے کہ خبر لائی جاسکے کہ کل عید ہے یا روزہ رکھنا ہے۔

بنوں اور وزیرستان والے چاند دیکھنے میں اتنے ماہر تھے کہ کئی بار تو سعودی عرب سے ایک دو دن پہلے عید منا بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ مسلسل تین دن سے بارش ہورہی تھی اور تین دن سے آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے کہ بنوں والوں نے عید منانے کی خبر سنا دی کہ آٹھ شہادتیں موصول ہوئیں ہیں کہ چاند دیکھا گیا ہے۔ سالوں بعد جب سائنس نے ترقی کی تو اس مولوی کو کچھ لوگوں نے گھیرا کہ بادلوں میں شوال کا چاند کس مرد مومن کو دکھائی دیا تھا۔ مولوی صاب نے معصومیت سے سات گواہوں کا ایڈریس دیا جو مسلسل تیس سالوں سے قسم اٹھا کر چاند کی شہادت دیتے آرہے تھے۔ معلوم ہوا کہ ان سات گواہوں کی بیویوں کے نام چاند بی بی تھے اور وہ قسم اٹھا کر مولوی صاحب  کو شہادت دیتے تھے کہ انھوں نے چاند کو دیکھا ہے۔

عید کی صبح نوجوان لڑکے  آنکھوں میں سرمہ ڈال کر، سر پر سرسوں کا تیل لگاکر، کندھوں یا سر پر رنگین عربی رومال باندھ کر، شلوار میں رنگین آزار بند ڈال کر اور قمیض کے چاک سے آزاربند کا پھولدار پھمن باہر نکال کر لٹکاتے پھرتے تھے۔ جس نوجوان کا پھمن جتنا بھاری اور پھولدار ہوتا اس کو اتنی داد ملتی۔

شام کو گاؤں کے بیچ چوک میں ایک چارپائی کھڑی کردی جاتی اور ایک کلومیٹر دور پہاڑی کی   چوٹی پر ایک چھوٹا سا آئینہ رکھ دیا جاتا اور گاؤں کے سب نوجوان اور بوڑھے بان کی چارپائی کیساتھ بندوق کی نال ٹکا کر آئینے پر شست لگا کر گولی چلاتے جو بھی آئینہ کو ہٹ کرتا ان کو پانچ سو روپے بطور انعام ملتا اور اس بندے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور شادی بیاہ میں خواتین اس مرد کو اپنے ٹپہ یا چاربیتہ میں خراج تحسین پیش کرتیں۔

عید کے دن خواتین اپنے اپنے میکوں کو جاتیں  اور شام کو واپسی پر سر پر ایک ٹوکرا جو میکے والے تحفتا ً اپنی بیٹی اور بہن کو دیتے تھے، سر پر لادے اور ساتھ میں آٹھ دس بچے بغلوں میں دیسی مرغیاں پھنسائے خراماں خراماں اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں ہوتیں ۔

عید کی شام خوبصورت لختئیوں کے رنگ ڈھنگ دیکھنے والے ہوتے۔ ہلکی بھیگی مسوں کے نیچے دانداسہ ملے لال ہونٹ اور تنگ قمیض پہنے ایک نزاکت سے قدم اٹھاتے وہ جب گاؤں کے بازار میں وارد ہوجاتے تو باخدا مرد اپنے دل تھام کر رہ جاتے اور جو بوڑھے ہوتے وہ فقط اپنا دل مسوس کر رہ جاتے۔ گاؤں کے بازار میں ہر بندے کی کوشش ہوتی کہ اس کا لختئی سب سے حسین نظر آئے سو اترا اترا کر خوبصورت لختئیوں کی جیسے کیٹ واک ہوتی – اس کیٹ واک کو رونق دینے والے ایسے شوقین مزاج مرد بھی ہوتے ، جنہوں نے اپنی جمع پونجی اور جائیداد تک ان لختئیوں کے عشق میں گنوا دی ہوتی تھی، سو وہ اپنی پھٹی پرانی جوتیاں چٹخاتے اور پیوندزدہ کپڑے پہن کر عید کے دن بھی اپنے لختئ کو مقابلہ حسن جتوانے میں عزت سادات سے بھی ہاتھ دھو لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایسی ہی ایک عید کی شام ہمارے تایا جان الحاج اکبر زمان خان اور اس کے منجھلے بیٹے کے درمیان بیچ بازار میں گرما گرمی ہوئی اور ایک دوسرے پر پستول تان لئے گئے۔ معلوم ہوا کہ تایا کے لختئی پر اس کا منجھلا بیٹا شیر عباس خان عاشق ہوا تھا۔اور تایا جان نے بھرے بازار میں بیٹے کا گریبان پکڑ کر کہا ،
“اگر مرد ہو تو اپنا لختئی ڈھونڈ لو۔شرم نام کی کوئی شئے ہے تیرے اندر کہ باپ کے لختئی پر نظر رکھے ہوئے ہو”۔

اس دن مجھے اسلامی تاریخ کی سمجھ آگئی تھی کہ ہمارے بادشاہوں کے خاندان میں ایک دوسرے کے خون کی پیاس کے پیچھے یہی محرکات ہی دراصل زوال کی پہلی وجہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب الحمداللہ میرے گاؤں میں اسلام آگیا ہے۔ بیویاں گھروں سے باہر نہیں نکلتیں کہ اسلام میں پردہ لازم ہے۔ بندوق جس سے نشانہ بازی کیجاتی تھی  آجکل شریعت کے  نفاذ کیلئے آگ اُگل رہی ہے۔ لڑکیاں اب اپنے محبوب کو رومال پر کڑھائی کرکے دل بنا کر نہیں بھیجتیں بلکہ اسمارٹ فون سے وٹس ایپ پر کال کرکے سینے کے اندر  دھڑکتا دل دکھانے کی لائیو کوشش کرتی ہیں۔ لختئی تو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں کہ جس کو دیکھو تحریک انصاف کا جھنڈا لیکر تبدیلیوں کی نوید سنا رہا  ہے، باقی ٹک ٹاک کے مشہور “گائیز” بن چکے ہیں۔
رہے پھولدار آزار بند تو وہ  آجکل خواب ہوگئے ہیں کہ مردوں نے شلواروں میں اب الاسٹک ڈالنی شروع کردی ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply