گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(9)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

دس

یہ کتنی ناممکن بات تھی، بھابھی جانتی تھی۔ پھر بھی اس بات کو اپنے دل میں پالے جا رہی تھی۔ آخر کیوں؟

آدمی کیلئے جینے کا سہارا اسی طرح ضروری ہے، جیسے ہوا اور پانی۔ کسی کے پاس کوئی حقیقی سہارا نہیں ہوتا، تو وہ فرضی سہارے کاہی سہارا لیتا ہے۔ وہ ایک تخیل، ایک خواب کا سہارا سامنے کھڑا کر لیتا ہے۔سبھی تخیل اور خواب کسی ٹھوس بنیاد پر ہی تعمیر ہوں، ایسی بات نہیں۔ بہت سی خواہشوں اور خوابوں کی بنیاد بھی خودساختہ، خیالی اورخوابیدہ ہوتی ہے۔ لیکن انسان انہی سے زندگی کی حقیقی طاقت حاصل کرکے جیتا رہتا ہے۔ کون جانے اس عجیب دنیا میں کہیں بے بنیاد تخیل اور خواب بھی ایک دن کامل ہو جائیں!

یہی بات صحیح ہے کہ اس طرح کے سہارے کی تخلیق آدمی اسی حالت میں کرتا ہے، جب اس کے لئے کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں رہ جاتا۔ جینے کی قدرتی غیر متزلزل چاہت آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ کیا بھابھی کی حالت ایسی ہی نہیں تھی؟ پھر وہ ایسا کر رہی تھی، تو اس میں غیر فطری کیا ہے؟

جس دن اس نے مٹرو کے منہ سے گوپی کی وہ چند باتیں سنی تھیں، اسی دن سے جیسے، بہت پہلے سے اس کے دل میں اُگے اس شگوفے کو ان باتوں نے امرت بن کر سینچنا شروع کر دیا تھا۔ یہ باتیں اس کی زندگی کے ویران تاروں کو ہر لمحہ مربوط کرتی رہتیں! اس کے ہونٹ ہمیشہ کسی منتر کی طرح دوہرایا کرتے،’’گوپی کو اس کی بہت فکر رہتی ہے۔ بیچارہ رات دن بھابھی بھابھی کی رٹ لگائے رہتا ہے ۔۔۔ان دونوں میں بہت محبت تھی کیا؟‘‘ اور اس کے جسم وجان جیسے ایک مدھر موسیقی کے امرت میں نہا اٹھتے۔ روح جیسے مضطرب ہو کر پکار اٹھتی،’’ہاں، محبت تھی، بہت ۔۔۔پردیسی، تو اسے خط لکھنا، تو میری طرف سے یہ لکھ دینا کہ مجھے بھی اس کی فکر لگی رہتی ہے- میری جان بھی رات دن اسی کی رٹ لگائے رہتے ہیں ۔۔۔ ہاں، پردیسی، ہم میں بہت محبت تھی، بہت!‘‘

بھابھی کو اس منتر کے جاپ نے بہت تبدیل کر دیا تھا۔ وہ چڑچڑاپن، وہ کڑواپن، وہ جھنجھلاہٹ، وہ غصہ، وہ بے رخی اب ختم ہو گئی تھی۔ اب وہ خود میں  جوش و جذبہ محسوس کرتی، کام میں کچھ مزہ لیتی، پوجاپاٹھ کا کچھ مطلب سمجھتی، ساس سسر کی خدمت گذاری میں اسے کچھ اجر دکھائی دیتا۔ بیکار جاتی زندگی کی کچھ وقعت کا احساس ہوتا، کوئی ہے ،جو اس کی بہت بہت فکر کرتا ہے، اس کی رات دن رٹ لگائے رہتا ہے۔ کوئی ہے، کوئی تو ہے ۔۔۔

گھر میں موجوداختلاف مٹ گئے۔ سب کچھ صحیح طریقے چلنے لگا۔ ساس کو کوئی شکایت نہیں رہ گئی۔ پکا پکایا دونوں وقت، میٹھی میٹھی التفات بھری باتیں، ہر حکم پر ایک پاؤں پر کھڑی بہو، کبھی ہلنے ڈلنے کا موقع نہ دینے والی، رات دیر تک ابٹن کی مالش! نصیب پھوٹی بہو گھر کی لکشمی نہ بن جائے تو کیا بنے؟ سسر تو پہلے ہی اسکی اطاعت گذاری کے غلام تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جس دن بہو نے ہاتھ کھینچا، وہ کل مرنے والے ہوں گے، تو آج ہی مر جائیں گے۔ بیوی کے بس کی بات کہاں رہ گئی تھی۔ بلکہ وہ تو ان کی لمبی بیماری سے عاجز آکر کبھی کبھی ایسے ظاہر کرنے لگتی کہ جیسے بوڑھا بوجھ ہو گیا ہو۔ بہو کی بہترین تیمارداری نے تو واقعی ان میں یہ امید پیدا کر دی تھی کہ وہ بچ جائیں گے۔ ان کے منہ سے ہر لمحہ دعاؤں کے الفاظ جھڑا کرتے۔

کبھی کبھی ان دعاؤں سے ایک نوع کی کلبلاہٹ محسوس کرکے بھابھی پوچھ بیٹھتی،’’بابوجی، مجھ ابھاگن کو آپ ایسی دعائیں کیوں دیتے ہیں؟‘‘

بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ بے چین ہوکر وہ بولتے،’’میں جانتا ہوں، بہو، کہ یہ بنجرزمین کو سینچنا ہے۔ لیکن اپنے من کو کیا کہوں؟ مانتا ہی نہیں، بہو میں تو ہمیشہ یہی دعا کرتا ہوں کہ توُخوش رہے!‘‘

ایک پھیکی مسکراہٹ ہونٹوں پر لا کر بھابھی کہتی،’’سکھ تو انہی کے ساتھ چلا گیا، بابوجی!‘‘ اور ٹپ ٹپ آنسو بہانے لگتی۔

’’ تُوسچ کہتی ہے بہو،’’بوڑھے روندھی آواز سے کہتے،’’عورت کا لوک پرلوک مرد سے ہی ہے۔‘‘

انکے گھٹنے پر سر رکھ کر بلکتی ہوئی بھابھی کہتی،’’میرا لوک پرلوک دونوں ختم گیا، بابوجی۔آپ مجھے آسیس دیجئے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، اس دنیا سے چھٹکارا مل جائے!‘‘

’’ نہیں، بہو، نہیں! تُو بھی اس اپاہج بوڑھے کو چھوڑکر چلی جانا چاہتی ہے؟‘‘ بوڑھے نے کانپتے لہجے میں کہا۔

سر اٹھا کر آنچل سے آنسو پونچھتی بھابھی کہتی،’’دیور کی نئی بہو آئے گی۔ وہ کیا آپ کی خدمت مجھ سے کم کرے گی؟‘‘

’’ کون جانے، بہو کیسی آئے گی؟ توُ توپچھلے جنم کی میری بیٹی تھی۔ نہ جانے کتنا گنگا نہا کر اس جنم میں تجھے بہو کے روپ میں پایا!‘‘ بوڑھے گدگداکر کہتے،’’دوسرے کی بیٹی اس طرح کسی کی خدمت کر سکتی ہے؟ یہ تو میری خوش قسمتی ہے بیٹی، کہ تجھ سی بہو مجھے ملی۔ نہیں تو کون جانے اب تک میری مٹی کہاں گل سڑ گئی ہوتی۔‘‘

’’ میرا بدقسمتی بھی تو یہی ہے بابوجی، کہ ساری عمر مصیبت جھیلنے کے لئے جی رہی ہوں۔ روح نہیں نکلتی۔ روز مناتی ہوں کہ کب یہ روح نکلے کہ زندگی سے چھٹکارا پاؤں! آخر اب میری زندگی میں کیا بچ گیا ہے، جس کی وجہ سے روح اٹکی رہے!‘‘ بھابھی نڈھال ہوکر کہتی۔

’’ اپنی سوچ سے کوئی نہیں مرتاجیتا،ا رے پگلی!‘‘ بوڑھے اسے تسلی دیتے ،’’ جانے کس کے نصیب سے توُ جی رہی ہے۔ میرے من میں تو آتا ہے کہ میرے نصیب سے ہی تو ُزندہ ہے۔ رام جی نے مجھے ایسا مرض دیا، تو اس کے ساتھ تجھ سی بہو بھی دی، کہ رات دن خدمت کر سکے۔ بہو، اپنے چاہنے،نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ جو رام جی چاہتے ہیں، وہی ہوتا ہے۔ کون جانے رام جی کی اس میں کیا مرضی ہو! بہو، میں تو سوچوں کہ میری ہی خدمت کیلئے پیدا ہوئی۔ ہاں ری، ایسا لگتا وقت تجھے گوپی کا خیال نہیں آتا؟ تم دونوں میں کتنی محبت تھی! مٹرو اس دن کہتا کہ گوپی کو تیری بہت فکر رہتی ہے۔ بہو، وہ تجھے بہت مانتا ہے۔ جب تک وہ جیے گا، تجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دے گا۔خاطر جمع رکھ۔‘‘

’’ کون جانے، بابوجی مقدر اور نصیب میں کیا لکھا ہے؟ دیور جی کا پیار مجھے بھی کم نہیں لگتا۔ اسے ایک بار دیکھ لیتی، پھر مر جاتی۔ جانے یہ نئی بہو کیسی آئے۔ اسکا رویہ میرے ساتھ کیسا ہو۔ مجھ سے تو کچھ سہا نہ جائے گا، بابوجی! کہیں دیور کا من میلا ہوا، تو میں تو کہیں کی نہ رہوں گی۔‘‘بھابھی پھر سسک اٹھی۔

’’ یہ تو ُکیا کہتی ہے، بہو؟‘‘ بوڑھے ایک میٹھی ڈانٹ کے ساتھ کہتے،’’تو میری بڑی بہو ہے! تو گھر کی مالکن کی طرح رہے گی! میرے رہتے ۔۔۔‘‘

’’ آپ کا بس کہاں چلنے کا بابوجی؟ تندرست رہتے، تو مجھے کسی بات کی فکر نہ رہتی۔ اس نے آکر کہیں دیور پر جادو پھینکا اور وہ اسکے بس میں ہوکر ۔۔۔نہیں بابو جی، میرا تو مر جانا ہی اچھا ہے! کہیں تال ،پوکھر ۔۔۔‘‘

’’ بہو!‘‘ بوڑھے جیسے چونک کر چیخ پڑتے،’’تال، پوکھر کا نام کبھی پھر منہ پر نہ لانا! جانتی ہے، توُ کس خاندان کی بہو ہے! بھلے ہی گھر میں گل سڑجانا، لیکن بہو، خاندان پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگانا! کسی کو کہنے کا اگر کبھی موقع مل گیا کہ فلاں کی بہو تال پوکھر میں ڈوب مری، تو میں اپنا سر پھوڑ لوں گا! اس بوڑھے کے سر کا خیال رکھنا، بیٹی، اور چاہے جو کرنا!‘‘ غضب سے چور ہو کر بوڑھے کانپنے لگتے۔

آنچل سے آنسو پونچھتی بھابھی وہاں سے ہٹ جاتی۔ اس بوڑھے سے کوئی بات کرنا بیکار ہے۔ یہ کچھ نہیں سمجھتا کچھ نہیں! اسے اپنی تیمارداری کی فکر ہے۔ بوڑھی کو گھر کے کام کاج اور اپنی خدمت کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی نہیں خیال کرتا کہ آخر اسے بھی تو کچھ چاہیے۔ لیکن کسی کو خیال بھی کیسے ہو؟ خواب میں بھی کوئی یہ تصور کیسے کر سکتا ہے کہ ایک کھشتریوں کی بیوہ بہو ۔۔۔ناممکن، ناممکن! اور بھابھی میں پھر جیسے ایک غصہ بھر اٹھنے کو ہوتا کہ تبھی کوئی کانوں میں گنگنا اٹھتا،’’مجھے تمہاری فکر ہے، بھابھی ! میں رات دن تمہاری رٹ لگائے رہتا ہوں! تم سے میں کتنی محبت کرتا تھا! مجھے آ جانے دو بھابھی، پھر تو ۔۔۔‘‘

اور بھابھی پھر ایک ہنڈولے پر جھولنے لگتی۔ کوئی پرواہ کرے یا نہ کرے، وہ تو ۔۔۔اور پھر کام میں مگن ہو جاتی۔

پھر پہلے ہی کا معمول چلنے لگتا تھا۔ وہی پوجا، وہی رامائن پاٹھ، وہی سب کچھ۔ ٹھاکر سے دعا کرتی،’’تیرا بازو بڑے لمبے ہیں، ٹھاکر ناممکن کو بھی ممکن کرنا تیرے لئے کوئی مشکل نہیں! کچھ ایسا کرنا کہ ۔۔۔‘‘

ایک دن بلرا کو بھوسے کی کھانچی تھمانے گئی، تو اس کے دل نے چاہا کہ بلرا پھر وہی بات کہے۔ لیکن بلرا خوف کھا کر سر جھکائے رہا۔ تب بھابھی نے ہی ٹوکا،’’کیوں رے، تجھے کوئی قتل کی دفعہ لگی ہے کیا، جو اس طرح خاموش رہتا ہے!‘‘

سر جھکائے جھکائے ہی بلرا نے کہا،’’سچ ہی، چھوٹی مالکن، کیا میرے منہ سے اس دن ایسی کوئی بات نکل گئی تھی ۔۔۔‘‘

’’ ارے، وہ تو میں بھول گئی۔ ناحق توُ ۔۔۔‘‘

’’ چھوٹی مالکن، میں من کی بات نہ روک سکا، کہہ ڈالی۔ میرے کہنے سے تم کو تکلیف ہوئی۔ مجھے معاف کر دو۔ چھوٹی مالکن، ہم لوگوں کے دل میں کوئی گرہ نہیں ہوتی۔ تم لوگ تو دل میں کچھ اور رکھتے ہو، منہ سے کچھ اور کہتے ہو۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ بڑے مالک اور مالکن آنکھوں سے تمہارا یہ روپ کیسے دیکھتے ہیں! میرا تو کلیجہ پھٹتا ہے! اسی عمر سے تم سادھنی بن کر کیسے رہ سکتی ہو؟اسی لئے من میں اٹھا کہ کہیں چھوٹے مالک کے ساتھ تمہارا ۔۔۔‘‘

بھابھی کا من گدرا گیا۔ آنکھیں مند سی گئیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے کسی نے کھینچ کر ایک تھپڑ جما دیا ہو۔ وہ بولی،’’ایسی بات نہ کہا کر بلرا۔‘‘اور اندر بھاگ گئی۔

بلرا کچھ لمحے وہیں کھڑا رہا۔ پھر ہونٹوں پر ایک کر خت مسکراہٹ لیے ناند کی جانب چل پڑا۔ سوچ رہا تھا کہ اس دن کا گرم لوہا آج کچھ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ آج ڈانٹ نہیں کھانی پڑی۔ سچ، اگر ایسا ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا! بیچاری کی زندگی خوشیوں سے کٹ جاتی۔ چھوٹے مالک بیاہ نہ کر سکیں، تو اسے رکھ تو سکتے ہی ہیں۔ کتنے ہی ان کی برادری کے ایسا کرتے ہیں۔ سننے میں تو آتا ہے کہ ان کے پردادا بھی ایک چمارن کو رکھے ہوئے تھے۔ پھر یہ تو ان کی بھابھی ہی ہیں۔ تھوڑے دن شور شرابہ ہوگا، پھر سب آپ ہی شانت ہو جائے گا۔ قصائیوں کے ہاتھ پڑی ایک گائے کی جان تو بچ جائے گی۔ کتنا پنیہ ہوگا!

مہینے دو مہینے میں رات برات مٹرو خیر خبرلینے ضرور آ جاتا۔ اب وہ چھاج بھی پھونک کر پیتا تھا۔ دشمنوں کو بھول کر بھی اب وہ ایسا کوئی موقع دینے کو تیار نہ تھا کہ پہلے ہی کی طرح پھر پکڑ میں آ جائے۔ وہ دِیّر کبھی نہیں چھوڑتا۔ جانتا تھا کہ اس نوعیت کے قلعے میں کوئی اس پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کرے گا۔ اب وہ پہلے کی طرح تنہا بھی نہ تھا۔ اس کٹیا کے پاس درجنوں جھونپڑیاں بس گئی تھیں۔ پچاسوں کسان نوجوان اپنی لاٹھیوں کے ساتھ ان میں رہتے تھے۔ بہت سارے اکھاڑے بھی کھل گئے تھے۔ سبھی کی بھینسیں بھی وہیں رہتی۔ مٹرو جب چھوٹ کر آیا تھا، تو ربیع کی فصل کٹ چکی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ دِیّر میں صرف ربیع کی ہی فصل بوئی جا سکتی ہے۔ پھر تو برسات شروع ہو جاتی ہے اور چاروں جانب پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ لیکن مٹرو خالی بیٹھنا نہیں چاہتا تھا، اس نے طے کیا کہ اب اوکھ بوئی جائے۔ سب نے نہ کیا۔ لیکن مٹرو نہ مانا۔ اس نے کہا کہ گنگا میا خوش ہو جائے گی تو اوکھ بھی ہوگی۔ اونچی، بہترین مٹی کی زمین دیکھ کر اس نے اوکھ بو دی۔ اس کی دیکھا دیکھی اوروں نے بھی ہمت کی کہ ایک کا جو حال ہوگا، سب کا ہوگا۔ جائے گا توٹکا اور کہیں آ گیا تو گڑ رکھنے کی جگہ نہ ملے گی۔

دِیّر گلزار ہو گیا۔ جھونپڑیاں بس گئیں۔ چولہے جلنے لگے۔ بھینسیں ڈکرانے لگیں۔ اکھاڑے جم گئے۔ بغیر کسی خاص کام کے اوکھ ایسی آئی کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوتا۔ تر، چکنی مٹی کا مقابلہ بانگر کی مٹی کیا کرتی؟ وہاں چار چار ہاتھ کی بھی اوکھ ہو جائے، تو بہت غنیمت، وہ بھی بڑی مشقت کے بعد۔ اور جب یہاں اوکھوں نے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ ہاتھی ڈوب جائے، بس، اب ڈر تھا گنگا میا کا۔ برسات کے سر پر چڑھ آئی تھی۔ ندی بڑھنے لگی تھی۔ سبھی کے دلوں میںدھک دھک سی مچی تھی۔ سبھی کہتے،’’گنگا میا! کرپا کر دو، تو اوکھ کاٹے نہ کٹے!‘‘ سب یہی گذارش کرتے کہ گنگا میا اس سال دھار پلٹ دیں۔

کچھ ایسی ہونہار کہ حقیقت ہی میں ندی کی مرکزی دھارا اب کے اُس پار بن گئی۔ پانی ادھر بھی خوب پھیلا، لیکن دس پندرہ دن میں اوکھوں کی جڑوں میں مزید زرخیر مٹی چھوڑکر چلا گیا۔ کسانوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ مٹرو کو سراہا جانے لگا۔ اس نے کہا،’’یہ سب گنگا میا کی کرپا ہے!‘‘

زمیں داروں نے براہ راست تو چھیڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اب ویسے بھی مٹرو تنہا نہ رہ گیا تھا۔ سننے میں بس یہی آیا کہ انہوں نے صدر میں درخواست دی ہے کہ کسانوں نے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، سرکار پڑتال کرائے اور باغیوں کو سزا دے۔ ورنہ بغاوت ہونے کا اندیشہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply