• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خاندانی منصوبہ بندی ہر بستی جنگل کرنی ہی پڑے گی۔۔اسد مفتی

خاندانی منصوبہ بندی ہر بستی جنگل کرنی ہی پڑے گی۔۔اسد مفتی

ہالینڈ کے ایک روزنامہ نے اے پی بی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سروے کے مطابق2050تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا،اور یہ کہ چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑ جائے گا،بھات ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وت چین،بھارت،بنگلہ دیش،پاکستان اور سی لنکا کی مجموعی آبادی باقی دنیا کی مجموعی آبادی کے لگ بھگ ہے،
اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین زیادہ بچے پیداکرنے کے رجحان میں تبدیلی کے باعث بھارت آبادی کے لحاظ سے چین پر سبقت لے جائے گا،رپورٹ کے مطابق بھارت کی موجودہ آبادی ایک ارب انیس کروڑ،جو کہ 2050تک بڑھ کرایک ارب پچاس کروڑ بیس لاکھ ہوجائے گی۔جبکہ چین کی موجودہ آبادی ایک ارب تیس کروڑ نولاکھ سے بڑھ کر ایک ارب تیس کروڑ دس لاکھ ہوجائے گی۔جس کے نتیجے میں بھارت کی آبادی چین سے زیادہ ہوجائے گی،اور ادھر دنیا کی آباد ی جولائی تک ساڑھے ساتھ ارب تک پہنچ جائے گی۔
ماہرین ارضیات کے مطابق کرّہ ارض اندازاً ساڑھے چار ارب سال قبل عالمِ وجودمیں آیا،اس پر حیات کے آثار دو ارب بائیس کروڑ سال پہلے نمودار ہوئے،اور زندگی کا باقائدہ آغاز بائیس کروڑ سال پہلے ہوا،اس سلسلے میں مختلف محققین نے متضاد نظریات پیش کیے ہیں،پیٹرکاکس کے مطابق کرّہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتداء پانچ لاکھ سال قبل ہوئی تھی،لیکن تازہ ترین شواہد کے مطابق کرّہ ارض پر انسانی زندگی آج سے تقریباً چالیس لاکھ سال پہلے نمودار ہوئی،
ابتدائی دور میں آبادی کم تھی،اور کسی مستقل بستی کا کوئی وجود نہ تھا،انسان کی سرگرمیاں محدود اور انتہائی پسماندہ تھیں،خوراک کے لیے اسکا انحصار شکار اور قدرتی پیداوار پر تھا۔سطح زمین کا تقریباً دوکروڑ مربع میل علاقہ زیرِ استعمال تھا۔ایک فرد کو اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دومربع میل علاقہ درکار تھااگر اس چیز کو بنیاد بنایا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں تھی،
لیکن ایک اندازے کے مطابق اب دنیا کی آبادی تقریبا ً35سال کے بعد دوگنا ہوتی جارہی ہے،جس سے بکوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 3000ء تک سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی،جبکہ خشکی تری اوربرفانی علاقے سمیت سطح زمین کے ہر مربع میٹر پر تقریباً دوہزار افراد موجودہوں گے۔
دنیا کی آبادی جو اقوامِ متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق 1970میں چار اشاریہ ۳ ارب تھی۔پھر ساڑھے پانچ ارب کے لگ بھگ ہوگئی،جو کہ جولائی تک ساڑھے سات ارب کے لگ بھگ ہوجائے گی،یوں تو آبادی میں تیز رفتاری سے اضافے کی کئی وجوہات ہیں،لیکن بڑی وجہ شرح اموات اور شرح پیدائش کا فرقہے،دنیا کے بیشتر ممالک میں بہتر طبی سہولتیں میسر ہونے کی بِنا پر شرح اموات میں قابل ِ قدر حد تک کمی واقع ہوئی ہے،مگر دوسری طرف شرح پیدائش میں اضافہ ہواہے۔برطانوی ماہر آبادی تھامس رابرٹ کے مطابق جس کا ذکر اس نے اپنی کتاب “آبادی کے اصول”میں کیا ہے،اگر کسی ملک کی آبادی ایک فیصد سالانہ کیشرح سے بڑھے گی تواسے دوگنا ہونے کے لیے 69سال کا عرصہ درکار ہوگا،دوفیصد اضافے کی شرح سے 35سال لگیں گے،تین فیصد سالانہ کی شرح سے 23سال بعد اور اگر آبادی چار فیصد سالانہ کی شرحسے بڑھے گی تو 17سال بعد دوگنا ہوجائے گی،اس فارمولے کی رو سے برطانیہ کی آبادی 460سال کے بعد چین کی 57سال کے بعد,پاکستان کی 22سال کے بعد اور کینیا کی 17سال کے بعد دوگنا ہوتی جارہی ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی میں ہر سال آٹھ کروڑ اور کچھ کے بقول ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔اس اضافے کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں بہت نمایاں ہے۔جبکہ ہر سال اس قدر اضافہ آبادی کابوجھ برداشت کرنا ان ممالک کی بساط سے باہرہے،اگر کسی طرح ٹیکنالوجی میں ترقی اور سرمائے میں اضافے کی وجہ سے پیداواری صلاحیتوں میں کچھ بہتری ہوبھی جائے تو بہت کم وقت میں آبادی کا بڑھتا ہواطوفان اس پر غالب آجاتا ہے جس سے طلب او ررسد میں بھی توازن قائم رکھنا محال ہوجاتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں افزائش آبادی کی شرح 4فیصد سالانہ تک ہے،لیکن اس کے برعکس بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے،جبکہ دنیاکی تقریباً 77فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے،اور ان کے باشندوں کی متوقع عمر اوسط 52سال تک ہے،جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کی اوسط عمر 75سال سے زائد تک جاپہنچی ہے۔ترقی پذیرممالک میں بچوں کی زیادہ تعداد اور کم عمری کی اموات سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کمانے والوں اور ان پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں توازن نہیں ہے۔علاوہ ازیں طبی سہولتوں کا فقدان ناخواندگی ا ور دوسری کئی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے شرح اموات بلند ہے۔
دنیا کی آبادی میں اضافہ 97فیصد ایشیائی،افریقی اور لاطینی امریکی کے ممالک میں ہورہاہے۔افریقی ممالک میں سالانہ اضافہ شرح 3فیصد ہے،جبکہ ایشیائی ممالک میں 2.8فیصد ہے۔پاکستان میں یہ اضافہ 3.2فیصد ہے،جبکہ برصغیر میں یہ اضافہمجموعی طور پر2.3فیصد ہے۔مجموعی طور پر ایشیا میں اضافہ آبادی 1.9فیصد سالانہ ہے۔جبکہ یورپ میں یہی اضافہ اوسطاً 0.25فیصد ہے۔دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس شہروں میں سات ایشیاء میں بستے ہیں،عرب ممالک میں آبادی میں اضافہ وہاں کی شرح آبادی میں زیادتی کی بِنا پر ہے،جہاں شرح اضافہ 3فیصد سالانہ ہے۔
عرب ممالک کی آبادی کے دوگنا ہونے کی صورت 3فیصد کے حساب سے 23سال بنتی ہے۔کیونکہ عرب میں نوعمری یا جلد شادی کرنے کا رواج ہے اور لوگ بڑے کنبے کو ترجیح دیتے ہیں،اس کے برعکس یورپ میں 1965کے بعد سے خواتین میں کم بچوں کو جنم دینے کے رواج کے باعث یہاں شرح آبادی 0.25سے کم ہوکر0.24تک آگئی ہے۔جبکہ پاکستان میں یہ شرح 6.6فی عورت ہے۔اس طرح جاپان کی شرح آبادی0.43فیصد ہے۔ 1960کے بعد دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپنانے کا عمل تیز ہوا ہے۔اس منصوبے پر عمل کرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں 10فیصد سے بڑھ کر 51فیصد ہوگئی ہے۔لیکن بدقسمتی سے برصغیر کے ممالک میں یہ شرح اب بھی 8فیصد سے آگے نہیں بڑھی،بیشتر ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کو ابتدائی صحت کا حصہ بتایا گیاہے۔
میرے حساب سے خاندانی مصوبہ بندی کا مطلب محض مانع حمل ادویات یا دوسرے طریقوں کا عام کرنا نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ زندگی اور طرزِ معاشرت ہے۔۔ایک ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جہاں سب اس کی افادیت کے قابل ہوسکیں،ورنہ آبادی میں اضافہ جہاں قدرتی وسائل کو تیزی سے کھا رہا ہے،وہاں انسانی زندگی کے معیار کو بھی گھٹارہا ہے،اگر ہمارا جہادک کے بغیر گزارہ نہیں تو حکومتیں،سیاسی نمائندے،ماہرین معیشت،سوشل ورکرز،ماہرینِ آبادی اور عام شہری بڑھتی آبادی پر کنٹرول پانے کے لیے اپنے اپنے محاذ پر “جہاد “کریں۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply