شہزادہ سلیم اور فلپائنی دوشیزہ۔۔سید شازل شاہ گیلانی

شہزادہ دس دن تک مسلسل انار کلی کا سوگ مناتا رہا۔ اسی سوگ میں اس نے عطاءاللہ عیسیٰ  خیلوی کی ساری کیسٹیں سن ڈالیں۔
شہزادےکا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر ملکہِ عالیہ سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے اٹھ کر اسے چپیڑ مارنا چاہی۔ ۔لیکن شاہی خون میں یہ بے عزتی سہنےکی طاقت نہ پا کر انہوں نے اپنا اٹھا ہوا ہاتھ سر کی جانب موڑ دیا۔
اور ایک جوں پکڑ کر اس کو اپنے ناخنوں پر پَٹِک کرکے غصہ اتار دیا۔

شہزادے کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی تھی۔جلال الدین اکبر کو شک گزرا کہ کہیں فرزند نے گولڈلیف پینی تو نہیں شروع کردی۔ لیکن کوئی ثبوت نہ پاکر انہوں نے شہزادے سےاس بارے کوئی استفسار نہیں کیا۔

بالآخر ایک دن بادشاہ جلال الدین اکبر نے شاہی امور سے فراغت پا کر ایک اعلان کروایا۔ اعلان یہ تھا کہ جو شخص شہزادے کے  چہرے  پر رونق واپس لوٹائے گا، اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔

یہ اعلان سن کر بہت سے لوگ آگئے۔۔۔
ایک شخص نے بڑھ کر کہا “حضور! اگر شہزادہ سلیم کا فیشل کرا دیا جائے تو رونق کی کچھ امید ہے” یہ سنتے ہی جلال الدین   فوراً جلال میں آگئے اور گرجتے ہوئے  کہنے لگے۔۔
“حدِ ادب! شہزادے نے آج تک منہ نہیں دھویا اور تم فیشل کروانے کی بات کرتے ہو، تمہیں اسی وقت سزائے موت سنائی جاتی ہے”
شاہی فرمان جاری ہوچکا تھا۔ آنے والے حجام کا سر تن سے جدا کیا جا چکا تھا۔ باقی آنے والے سہم گئے۔اور پھر ان میں سے کسی نے آگے آنے کی ہمت نہیں کی۔

اچانک سب لوگوں نے دیکھاکہ کہیں دور سے گرد کا طوفان اُٹھ رہا ہے۔ بادشاہ سمیت سب اس طرف متوجہ ہوگئے۔ طوفان میں سے ایک شبیہ ابھری۔ سب نے دیکھا کہ ایک نوجوان منہ پر ماسک چڑھائے گھوڑا دوڑائے محل کی طرف آرہا ہے۔
وہ نوجوان فوراً بادشاہ کے روبرو حاضر ہوا۔ اور گویا ہوا:
“حضور! ہم نے آپ کا اعلان سنا۔ ہمارے پاس شہزادے کے  چہرے کی  رونق واپس لانے کا کلیہ ہے۔لیکن جان کی امان پاتے ہوئے میری درخواست ہے کہ میں ڈائریکٹ شہزادے سے بات کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گا”
“اجازت دی جاتی ہے” بادشاہ نے تخت پر بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔
شہزادہ اپنے کمرے میں 32 انچ کی سامسنگ سکرین پر مولا جٹ فلم دیکھنے میں محو تھا۔
“حضور! ایک بندہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے” شاہی دربان نے اندر آتے ہوئے کہا۔
“اجازت ہے” شہزادے نے کہا۔
“حضور گستاخی معاف! ہمیں آپ کے دکھ کا اندازہ ہے۔اور ہم آپ کے اس دکھ کا علاج بخوبی جانتے ہیں” آنے والے نوجوان نے کہا۔
“کہو، کیا کرسکتے ہو” شہزادے نے کہا۔
حضور ہمیں معلوم ہے انار کلی کے علاوہ کوئی بھی آپ سے میسنجر پر بات نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی اور لڑکی آپ کی ریکویسٹ قبول کرتی ہے”نوجوان نے کہا۔
“بالکل، بجا فرمایا، اب تمہارے پاس اس کا کیا حل ہے؟” شہزادے نے پوچھا۔
“شہزادہ حضور! آپ کسی فلپائنی دوشیزہ کو ریکویسٹ بھیجیں۔ وہی اس وقت آپ کے  دکھ  کا مداوا کرسکتی ہے” نوجوان نے کہا۔
شہزادہ ایک دم خوش ہوگیا۔ فوراً فلم بند کی اور خوشی سے قلقاریاں مارتے ہوئے بالکونی میں آگیا۔
اکبر اعظم نے جب شہزادہ سلیم کو خوش ہوتے دیکھا تو فوراً اس نوجوان کو طلب کیا اور منہ مانگے انعام کا حق دار ٹھہرایا۔

نوجوان کے دونوں کام ہوگئے۔ ادھر فیک آئی ڈی پر فلپائنی دوشیزہ بن کر شہزادے کو گھیر لیا اور ادھر منہ مانگا انعام بھی ہاتھ لگا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سید شازل شاہ گیلانی
پاسبان وطن سے تعلق , وطن سے محبت کا جذبہ اور شہادت کی تڑپ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply