جج نے پیرا چھیاسٹھ کیوں لکھا۔۔ہوشربا انکشاف

جنرل مشرف کے خلاف مختصر فیصلہ آیا تو اسکا مکمل خیر مقدم کیا گیا مگر آج تفصیلی فیصلے نے اس کے حسن کو طالبانی لہسن لگوا دیا۔
محترم جج وقار سیٹھ نے فیصلہ کے پیرا چھیاسٹھ میں کہا کہ جنرل مشرف کو سزا یقینی بنائی جائے اور اگر گرفتاری سے قبل وہ مر جائیں انکی لاش گھسیٹ کر ڈی چوک میں تین دن کیلئیے لٹکا دی جائے۔ ایسے غیر قانونی، جذباتی اور ناسمجھ پیرا نے پوری قوم کو حیران کر دیا۔ حتی کہ وہ لوگ جو فیصلے کے حق میں ہیں وہ بھی اس پیراگراف کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔
ہم نے اپنے نمائندہ خصوصی مسٹر کلک بیٹر سے بات کی جنھوں نے اہم انکشاف کیا۔ انکا کہنا تھا کہ “لمبا تھا۔۔۔ بہت لمبا تھا۔۔۔ فیصلہ بہت لمبا تھا اور مسلسل لکھنا پڑا۔ جسٹس وقار کیونکہ عدالتی عملہ کے ساتھ موجود تھے تو انکو شدید کریونگز کا شکار ہونا پڑا۔ کئی گھنٹوں تک وہ نسوار نا کھا پائے۔ پیرا چھیاسٹھ تک آتے آتے انکی طلب کی شدت نے انکے دماغ پہ بہت شدید اثر کیا اور وہ ھیلوسینیشنز کا شکار ہونے لگے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ اچانک پشتو، پھر پنجابی اور پھر عربی بولنے لگ گئے اور ہر جملے کا ایک ہی مطلب تھا؛ الٹا لٹکا دوں گا۔ “
کلک بیٹر نے مزید بتایا کہ فیصلہ لکھنے اور سائن کرنے کے بعد جج فورا ریٹائرنگ روم میں گئے اور دس منٹ تک نسوار سے شغل کیا۔ اسی دوران انکو اندازہ ہوا کہ وہ ایک اچھے بھلے فیصلے کو برباد کر چکے ہیں۔ وہ فورا چیختے ہوے باہر آئے مگر منہ میں نسوار اور دہن سے اُڑتے چھینٹوں کی وجہ سے کوئی نا سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھے کہ شاید وہ مشرف کو پکڑنے خود روانہ ہو رہے ہیں یا شاید دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں، ایسے میں انکے عملے نے انکو دبوچ لیا۔ جب تک انکے منہ میں گندی انگلیاں ڈال کر نسوار باہر نکالی گئی تو بیس منٹ گزر چکے تھے اور چیختے کہ کمینو بھاگو فیصلہ روکو مجھے کچھ بدلنا ہے۔ لیکن تب تک فیصلہ پارٹیز کے حوالے کیا جا چکا تھا اور اب کچھ نا ہو سکتا تھا۔
کلک بیٹر نے بتایا کہ جسٹس وقار تب سے خاموش ہیں اور مسلسل فیصلے کی کاپی پہ نسوار ڈال کر پھونکوں سے اڑا رہے ہیں۔ خبر ہے کہ برطانیہ میں موجود معروف قانون دان انعام رانا نے ہنگامی بنیادوں پہ انکے اسائلم کی تیاری شروع کر دی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply