اللہ کا عدالتی نظام۔۔عزیز خان

آج کل وکلا ء زیر عتاب ہیں ،ایک ایسا پیشہ جو ہمارے قائد اعظم نے اپنایا تھا، آج اُس پیشے کے وکلا نے اپنی ایک چھوٹی سی غلطی سے برسوں کی کمائی ہوئی عزت ختم کردی ،نوجوان وکلا نے جوش میں اپنے ہوش کھوئے اور پھر سب نے دیکھا آسماں اور زمین اُن کے دشمن ہو گئے۔

یہ سب اچانک نہیں ہوا اس کے پیچھے بھی کچھ محرکات ضرور ہوں گے، کسی کا دل ضرور دُکھا ہو گا، جس پر شاید کوئی غور نہیں کر رہا، اپنی سروس کے شروع میں میں نے دیکھا کبھی کوئی وکیل تھانے  پر نہیں آیا کرتا تھا بلکہ تھانے پر جاناوکلا اپنی توہین سمجھا کرتے تھے پھر ایک دور آیا ،وکلاء  تھانوں پر جانا شروع ہو گئے ایک وکیل کا کام صرف عدالت تک ہوتا ہے مگر اب بعض وکلا ء نے کیس میں پولیس اور جج کی فیس بھی شامل کر لی۔

عدالت سے ضمانت  مسترد ہونے پر ملزم کو گرفتار کرنا پولیس کا حق ہوتا ہے مگر کچھ وکلاء  ان کی گرفتاری میں بھی حائل ہوجاتے ہیں۔
میرے ایک دوست عباس صدیق نے بڑی مشکل سے 489 F کا مقدمہ درج کروایا ،پہلے SHO نے انکوائری کی پھر DSP اور آخر میں SP کینٹ نے سن کر مقدمہ درج کرنے کا حکم فرمایا Sho کو خوش کیا گیا اب اگلا مرحلہ تفتیش کا تھا اب تفتیشی کو بھی خوش کیا گیا مگر ُاس نے بتایا پولیس SOP کے مطابق چیک کے ملزم کو ہم گرفتار نہیں کر سکتے کیونکہ افسران کا حُکم یہی ہے۔

جس دن مقدمہ درج ہوا دوسرے دن ملزم نے ضمانت کروا لی کیونکہ تھانے  سے ملزم کو اُسی روز اطلاع کردی تھی تین ماہ شیشن جج کے پاس درخواست ضمانت چلتی رہی آخر جج صاحب نے درخواست خارج کر دی مگر فیصلہ عدالت کا وقت ختم ہونے سے کُچھ دیر قبل سُنایا گیا جب ملزم حاضر نہ تھا یہ بھی میرے لیے تعجب کی بات ہے کہ آج کل جج صاحبان اکثر فیصلے اسی طرح کرتے ہیں تاکہ وکلا کی عزت افزائی سے بچ سکیں۔

ملزم نے عدالت عالیہ سے ضمانت کروا لی دوسری پیشی پر معزز جج صاحب نے ملزم کی ضمانت خارج کر دی تفتیشی موجود تھا مگر اُسے جُرت نہ ہوئی کہ ملزم کو گرفتار کر سکے کیونکہ ملزم کا وکیل ہائیکورٹ بار کا صدر تھا وہ خود تو نہ آئے مگر اُن کا وکیل بھائی موجود تھا وہ ملزم کو لے کر جانے لگا تو تفتیشی نے ملزم کو روکنے کی کوشش کی صدر بار کے بھائی نے تفتیشی کو گالیاں دیں اور اُس کی ٹوپی اتار کر نیچے پھینک دی اور بولا تمہاری جرات کیسے ہوئی ملزم کو گرفتار کرنے کی ۔۔۔

یہ واقعہ مجھے میرے دوست نے سُنایا تھا، مزید بتایا کہ اُس تفتیشی Asi کی آنکھوں میں اُس نے جو بے بسی دیکھی آج تک نہیں بھولتی۔

مجھے پورا یقین ہے کہ اُس Asi نے یہ بات اپنے کسی افسر سے نہیں  کی ہوگی ،اگر کر بھی لیتا تو افسر کیا کر لیتا ؟ یہاں تو ایسی ذلت روز ہوتی ہے کُچھ دن قبل ایسی ایک ذلت حمزہ شہباز کے ہاتھوں ایک ایس پی کو بھی برداشت کرنی پڑی تھی وہ بھی نہیں بولا تھا تو Asi کی کیا اوقا ت ہے۔

انسان ہونے کے ناطے ہم سے کبھی کبھی کوئی ایسا فعل سرزد ہو جاتا ہے یا کسی کا دل دُکھتا ہے جو اللہ کو نا پسند ہوتا ہے اور پھر اُس کی سزا ضرور ملتی ہے عباس صدیق ایک نیک انسان ہے ایک سال کی محنت کے بعد وہ قانونی جنگ جیتنے کے قریب تھا اس کی رقم شاید مل جاتی پہلے وہ پولیس کے رویے سے نالاں تھا مگر ایڈوکیٹ کے رویے  کے بعد وہ پولیس کی زیادتی بھول گیا اب اُسے صرف اُس وکیل کا چہرہ یاد ہے جس کی وجہ سے اب وہ پھر پولیس والوں کی منت اور خدمت کرے گا تاکہ مفرور ملزم کو گرفتار کروا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ واقعہ اصل اور مکروہ چہرہ ہے ہمارے موجودہ قانون اور عدالتی نظام کا جس میں ہم رہتے ہیں، مگر اللہ کا قانون اور عدالتی نظام جب حرکت میں آتا ہے تو پھر واقعی آسمان اور زمین دشمن ہو جاتے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply