قانون کی خلاف ورزی از خود مسئلہ ہے۔۔عدیلہ ذکاءبھٹی

پاکستان جنوبی ایشیاء کا ترقی پذیر ملک ہے۔ ہمیں بہت سے سنگین ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہےجب ملکی معیشت میں وسعت اور آبادی میں اضافہ ہوتا ہے تویہ مسائل اور بھی سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں۔اگرچہ غیر سرکاری تنظیموں اور سرکاری محکموں نے ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھاۓ ہیں لیکن پاکستان میں ماحولیاتی مسائل اب بھی باقی ہیں۔ان مسائل میں سے ٹریفک مسائل کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پاکستان کے تقریبا ًتمام بڑے شہروں میں ٹریفک کا مسلہ انتہائی شدید ہو چکا ہے ٹریفک میں اضافہ سے ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں ٹریفک مسائل کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔

بلا شبہ تیز رفتار ڈرائیونگ،خراب سڑکیں،نا تجربہ کار ڈرائیور، ون و یلنگ اور دوسری بہت سی وجوہات ہیں جو ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں لیکن ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی ان میں سے اہم وجہ ہے۔

پاکستان کی پولیس کو وسیع پیمانے پر ریاست کے سب سے مکروہ،بد عنوان اور نا قابل حساب ادارو ں میں شامل کیا جاتا ہے۔

خاص طور پر شہروں اور مقامی سڑکو ں پر ٹریفک پولیس کی بد عنوانی کوئی پوشیدہ واقعہ نہیں ہے ۔پولیس افسران رشوت لیتے ہیں اور خلاف ورزی کو نظر انداز  کرتے ہیں یا پھر اپنی نگرانی میں خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں۔ اپنی پوزیشن/ وردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے پولیس افسران آزادانہ یا کسی کولیگ کے ساتھ مل کر ٹرانسپورٹ میں اپنی ایسی خدمات انجام دیتے ہیں ۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور دیگر جو سیاسی روابط رکھتے ہیں تیز رفتاری اور دیگر خلاف ورزیوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور باقی ڈرائیور اپنے مالکان کے ہمرا پولیس کی اتفاق رائے سے خلاف ورزياں کرتے پھر رہے ہیں۔تقريباً ہر دوسرا مسافر پولیس ، سرکاری عہدداروں اور سیاستدانوں کا حوالہ رکھتاہے ۔اگر ٹریفک پولیس اپنا کام ایمان داری سے سر انجام دیتے ہوئے مسافروں کو قانون کی خلاف ورزی پر پکڑے بھی تو ا س طرح کے حوالہ جات ملنے پر بری کر دیتی ہے۔

ابھی پچھلے ہی دنوں “کرنل کی اہلیہ” کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔محترمہ چند منٹ انتظار کرنے کی بجائے قوانین توڑتے اور اور قانون نافذ کرنے والے پولیس اہلکار کے ساتھ بدسلوكی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائی گئیں۔اس سے قبل ہمارے پاس پی ٹی آئی کی ایم پی اے عظمیٰ کاردار اور وزیرانسانی حقوق شیری مزاری جیسی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے کی بجائے تشدد اور دھمکیوں کا پرچار کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ  میں کون ہوں ؟ میں انسپکٹر جنرل کو آپ کی اطلاع دوں گا! ہم سب نے کئی دفعہ اس طرح کے الفاظ ان جیسی شخصیات کے منہ سے سنے ہوں گے۔یہ عمل نا صرف خلاف ورزیو ں کو فروغ دے رہا ہے بلکہ تعصب اور اقربا پروری کی ثقافت کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔جب حکمران طبقہ ہی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا تو عوام کیا کرے گی ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ہاں جو انتشار پایا جاتا ہے وہ ان اشرافیہ کی ناقص مثالیں قائم کرنے کا ہی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے عام لوگ بھی کہتے ہیں کے “اگر وہ بچ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے” ۔
یہ صرف اور صرف کمزور قانونی نظام کا نتیجہ ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کے ممبرو ں میں پیشہ ورانہ مهارت کا فقدان قانون سازی کےمقاصد کو سب سے بڑا دھچکہ ہے۔حتی کے ٹریفک پولیس کے بہت سے افسران خلاف ورزی کرنے والے کو یہ احساس دلانے میں ناکام رهتے ہیں کے اس نے کیا خلاف ورزی کی ہے اور اسے کیوں سزا دی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک میں ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کےلیے اور سڑکوں پر قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس افسران کی ٹریننگ کی تو ضرورت ہے ہی ساتھ لوگوں کی قانون ہاتھ میں لینے کی پریکٹس کی حوصلہ شکنی کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔

Facebook Comments

Adeela Zaka bhatti
Mphil scholar department of sociology Qau Islamabad

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply