• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

سابق پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کیس تھا اور بہت بڑا فیصلہ آیا۔ 31 مارچ 2014 کو اس سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی۔ بالآخر 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ نے یہ فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ 2-1 کی مناسبت سے سنایا گیا۔ جسٹس نظر محمد اکبر نے فیصلہ سے اختلاف کیا۔ فیصلہ کے آنے کے کچھ دیر بعد آئی ایس پی آر کا ردعمل بھی آیا جس میں شدید دکھ اور پریشانی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اس فیصلے سے فوج کا مورال ڈاؤن ہوا ہے۔ جنرل مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔

یقیناً یہ ایک بہت بڑا کیس تھا جس کا فیصلہ اس سے کہیں بڑا اور کافی حد تک غیر یقینی آیا ہے۔ کچھ دوستوں کے خیال میں یہ سزا پرویز مشرف کو اکتوبر 1999 کے مارشل لاء لگانے کی وجہ سے سنائی گئی ہے۔ تو ان کے علم کیلئے بتاتا چلوں کہ یہ کیس نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگانے اور آئین معطل کرنے کی وجہ سے بنایا گیا اور اسی کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس سزا کا اکتوبر 1999 والے مارشل لاء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اکتوبر 1999 والے مارشل لاء کو اس وقت کی معزز عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے تحفظ دے دیا تھا۔ بعد ازاں پارلیمنٹ نے بھی اس مارشل لاء کی توثیق کی تھی۔یہ تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی والا کیس دراصل اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے فارورڈ کیا گیا تھا۔

ماہرین قانون کی رائے میں آئین کا آرٹیکل چھ جس کی بنیاد پر یہ کیس بنایا گیا اس کو درست طریقے سے پڑھا اور سمجھا ہی نہیں گیا۔ آئین و قانون یہ کہتا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا کوئی بھی کیس وفاقی کابینہ کی توثیق کے بغیر وزیراعظم فارورڈ نہیں کر سکتے۔ یعنی ایسا کیس صرف وفاقی حکومت ہی بھیج سکتی ہے اور وفاقی حکومت میں صرف وزیراعظم ہی نہیں اس کی پوری کابینہ کی توثیق و مرضی لازم ہوتی ہے۔

اب یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیس کابینہ کی توثیق و مرضی سے نہیں بھیجا گیا تھا۔ ماہرین کے نزدیک اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے پرویز مشرف کیساتھ شدید اختلافات تھے اور چونکہ وہ پرویز مشرف کیساتھ ناراض تھے لہذا یہ کیس ذاتی پُرخاش کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس کیس کی بنیاد بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آرٹیکل چھ ہی کی ذیلی دفعہ یہ کہتی ہے کہ اس عمل میں شامل دیگر مددگار افراد بھی اسی سزا کے مرتکب ہوں گے۔ لیکن یہاں اس کیس میں معاملہ ہی اور ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ بھی آئین کے منافی ہے کہ کیس صرف پرویز مشرف پر بنایا گیا حالانکہ اس وقت وزیر اعظم، وزیر قانون، چاروں وزرائے اعلی اور دیگر کابینہ بھی اس فیصلہ میں شامل تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کیس صرف اور صرف پرویز مشرف کیخلاف بنایا گیا کیونکہ پرویز مشرف کی کابینہ کے کچھ لوگ میاں نواز شریف کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی ماہرین کی اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ صرف پرویز مشرف کیخلاف کیس کا بنایا جانا صرف اور صرف میاں نواز شریف کی ذاتی عناد کا شاخسانہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو بار بار عدالت آنے کا موقع دیا گیا لیکن وہ نہیں آئے۔ ماہرین قانون کے نزدیک اتنی بڑی سزا ملزم کو سنے بغیر پھر بھی نہیں سنائی جا سکتی۔ اس کیلئے ملزم کو سنا جانا ضروری ہے۔ کیا اس فیصلے سے پھر یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ حسن نواز، حسین نواز اور اسحٰق ڈار کو بھی پھر بغیر سنے سزا سنا دی جائے؟

بعض صحافیوں کی طرف سے ایک سوال آیا کہ چند روز قبل چیف جسٹس نے ایک تقریر کے دوران ایک سابق آرمی چیف کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر اشارہ کرکے کہا کہ انکے خلاف بھی فیصلہ آنے والا ہے۔ آج اس پر بھی تنقید کی جا رہی تھی کہ منصف اعلیٰ صاحب اس اشارے سے کیا تاثر دینا چاہتے تھے؟ کیا پاکستان کے قاضی اعلیٰ کو اس طرح سے تقریر میں یہ ذکر کرنا چاہیے تھا؟ کیا ان کو پہلے سے ہی علم تھا کہ ایسا فیصلہ آنے والا ہے۔ جس پر آج جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ تین ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل بنچ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کو یہ ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل کو سنا جائے اور دفعہ 342 کے تحت بیان بھی لیا جائے۔ لیکن خصوصی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر بھی عمل نہیں کیا اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لہٰذا اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو اس فیصلے کے بعد عوام کے ازہان میں ہنوز تشنہ ہیں۔

پرویز مشرف نے مذکورہ ایمرجنسی بطور آرمی چیف لگائی اور بطور آرمی چیف آئین میں ترمیم کا یہ اختیار انھیں سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں دے دیا تھا۔
ماہر قانون بیرسٹر افتخار کہتے ہیں کہ نومبر 2007 کی ایمرجنسی پرویز مشرف نے اگر بطور صدر پاکستان بھی لگائی تو اس میں آئین کی خلاف ورزی بالکل بھی نہیں ہوئی بلکہ یہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 232 صدر پاکستان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر وہ مطمئن ہو تو ایمرجنسی لگا سکتا ہے۔ لیکن یہاں صدر پاکستان یا آرمی چیف نے اس وقت کے وزیراعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ اور کابینہ کیساتھ مشورے  کے بعد یہ ایمرجنسی لگائی لہٰذا اس ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔ اور ویسے بھی اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کے بعد سپریم کورٹ نہ صرف پرویز مشرف کے مارشل لاء کو تخفظ دے چکی تھی بالکل کسی بھی ایسے اقدام کا اختیار پہلے سے ہی دے چکی تھی۔ سابق جسٹس شائق عثمانی کی رائے میں اس فیصلے کیخلاف اسی خصوصی عدالت میں ریویو بھی دائر کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال فیصلہ کے بعد ایک بات تو طے ہے کہ اداروں کے درمیان تناؤ کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات میں سرد مہری کا امکان ہے جس کا پاکستان فی الحال متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر پہلے ہی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں تیس دن کے اندر اندر اپیل دائر ہو سکتی ہے۔ اپیل کے لیے سزا یافتہ مجرم کا آنا ضروری ہوتا ہے لیکن ماضی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جن کی رو سے اپیل سزا یافتہ مجرم کی حاضری کے بغیر بھی دائر ہو سکتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کے مطابق اس فیصلے سے افواج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت یہ سزا معاف کر سکتی ہے لیکن افواج پاکستان ایسے معافی کے حق میں نہیں ہوں گی۔ بہر حال آنے والے دنوں میں اس فیصلے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply