مسکراہٹیں بکھیرتی شام۔۔مدثر سبحانی

پاکستان رائٹر کونسل اور ادبی تنظیم وجدان کے اشتراک سے اہلیان ننکانہ صاحب کے لیے شاندار ہنستی، مسکراتی، کھلکھلاتی شام مزاح کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں ،بلآخر پروگرام کی تاریخ فائنل ہوگئی اور مہمانان گرامی کے اسمائے مبارک بھی۔ جب سے پتہ چلا کہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں شام مزاح کا انعقاد کیا جارہا ہے تو خدا شاہد ہے کہ جیسے تیسے صبر کا دامن پکڑے دن گزارے۔ پاکستان رائٹر کونسل کے زیر اہتمام شام مزاح میں شرکت کے لیے ہمدم دیرینہ جناب حافظ محمد سعید فاروقی، محمد راشد ندیم اور محمد ساجد خاں کی معیت میں رخت سفر باندھا۔ جناب محمد سلیم جباری اپنی نجی مصروفیت کے باعث باوجود خواہش کے ہمراہ نہ جاسکے جس کی کمی ہم نے شدت سے محسوس کی بہرحال دوران سفرگاڑی میں بیٹھے کبھی سڑک کے دائیں اور کبھی بائیں طرف دیکھتا، کبھی گھڑی کی ٹک ٹک سنتا اور کبھی باقی ماندہ سفر کے بارے معلوم کرتا۔

بہرحال ہمارا قافلہ ننکانہ صاحب کی حدود میں داخل ہوگیا اور بارکونسل کے باہر غلام محی الدین،اکبرعلی، ننھے ادیب حذیفہ اکبر اور مرزا محمد یٰسین بیگ نے اپنے منفرد انداز میں خوش آمدید کہا۔
ننکانہ صاحب بارکونسل حال کا اندرونی منظر تو کمال کا تھا۔ اتنے سرد موسم اور بادلوں کی آنکھ مچولی کے باوجود سامعین کی کثیر تعداد نے شرکت کی کوئی بھی نشست ایسی نہیں تھی جو اپنے  ساتھی  کی راہ  نہ تکتی ہو۔پاکستان رائٹر کونسل کی تقریبات اپنی الگ اور منفرد پہچان بنا چکی ہیں جن میں موسم اور فاصلے حائل نہیں ہوسکتے۔ ان سے بے نیاز ہوکر ملک کے طول وعرض سے احباب جوق در جوق تشریف لائے یہ منظر پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی مرزامحمد یٰسین بیگ اورپاکستان رائٹر کونسل کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

محفل مزاح ممتاز کالم نگار، شہنشاہِ ظرافت جناب عطاء الحق قاسمی کی صدارت میں انعقاد پذیر ہوئی۔ اس تقریب کی خوبی یہ تھی کہ پہلی بار ملک کے نامور مزاح نگاروں کو اہلیان ننکانہ صاحب کے سامنے اپنی شگفتہ تحریریں پیش کرنے کے لیے حسین احمد شیرازی، گل نوخیز اختر، اشفاق احمد ورک،ناصر محمود ملک اور شاہد ظہیر سید کو مدعو کیاگیا۔
مہمانان خاص جناب سجاد جہانیہ، چوہدری محمد انور زاہد، رائے محمد خاں ناصر، فیاض چوہان اور رانا تصویر تھے۔

کسی بھی انسان کا نارمل زندگی گزارنے کے لیے ہنسنا، مسکرانا بہت ضروری ہے ویسے بھی ہمارے معاشرے میں ہر شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ آج جس کو بھی دیکھیں معلوم کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بیماری کی وجہ سے پریشان ہے، کوئی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پریشان اور کسی کو گھریلو پریشانیوں نے اپنے حصار میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان رائٹر کونسل نے پائے کے مزاح نگاروں کے ذریعے سے لوگوں کے فرسودہ چہروں پر رونقیں لانے کے لیے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔

پروگرام کا آغازپروڈیوسر ریڈیو پاکستان قار ی نوید عالم کی مسحور کُن تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا اور پھر عطاء الحق قاسمی صاحب کی لکھی نعت رسول مقبول علی نواز قادری نے پڑھ کر سامعین کی روح کو تازہ کیا۔

سٹیج کی نظامت کے فرائض لیجنڈ شاعر و کالم نگار جناب افضل عاجز کے پاس تھے جو انہوں نے بڑی مہارت سے اد ا کیے۔ نہایت ہی دلکش انداز میں وہ منتخب الفاظ اور جملوں کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملاتے رہے اور مقررین کو ڈائس پر مدعو کرتے رہے۔
حسین احمد شیرازی نے اپنی کتاب بابو نگر سے اقتباس پڑھ کر سنایا اور سامعین سے خوب داد وصول کی۔
گل نوخیز اختر نے بھی اپنی ہنسا ہنسا کرلوٹ پوٹ کر دینے والی شگفتہ و شائستہ تحریر پیش کی جس سے سامعین بہت لطف اندوز ہوئے اور ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔

شہرہ آفاق کتاب ”مزاح کبیر“ کے مصنف جناب ناصر محمود ملک بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے مزاح کبیر سے اقتباس کہانی ایک کار کی پڑھ کر سنایا اور سماں باندھ دیا۔
ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر معروف ادیب و کالم نگار جناب سجاد جہانیہ نے بھی اپنی تازہ تصنیف ادھوری کہانیاں سے معاشرتی مضمون پیش کیا اور حاضرین کی بھر پور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔
رائے محمد خاں ناصر، چوہدری انور زاہد نے کہا کہ ننکانہ شہر کو اتنے عظیم پروگرام سے نوازنے پر ہم پاکستان رائٹر کونسل کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
مرزا محمد یٰسین بیگ نے اپنی مختصر سی گفتگو میں کہاپاکستان رائٹر کونسل اپنی مدد آپ کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہے اور ہم آپ احباب سے صرف اس چیز کی درخواست کرتے ہیں کہ آپ پورے ذوق و شوق کے ساتھ پروگراموں میں شرکت کیا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروگرام کے اختتام پر کرسی صدارت پر جلوہ افروزجناب عطاء الحق قاسمی نے اپنی زندگی کی کچھ حسین یادوں کو سامعین کے ساتھ شیئر کیا۔ جس سے سامعین جی بھر کر ہنسے اور خواہ وقتی طور پرہی مگر اپنے غموں کو بھول گئے۔
پروگرام کی کامیابی کا سہرہ مرزا محمد یٰسین بیگ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے جن کی محنت کا ثمر ہے کہ پروگرام کے اختتام تک مجمع بندھا رہا۔حاضرین اور مہمانان گرامی کے لیے پُر تکلف کھانے کا بھی انتظام تھا۔ اللہ کرے یہ قافلہ یوں ہی رواں دواں رہے۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply