جوکر-ہنس ہنس کر/تبصرہ-خورشید اکرم

[خورشید اکرم نرے مبصر نہیں ہیں کہ وہ پروفیشنل نقادوں اور مبصرین کی طرح اصطلاحات کے اوزار اور دانشوری کے اسلحے سے کسی ناول کا ستیا ناس کریں۔ وہ ایک تخلیق کار ہیں، نظمیں بھی لکھتے ہیں اور کہانی بھی ، اس لیے کسی بھی فن پارے کو پڑھتے ہوئے وہ دل اور محسوسات کے ساتھ پڑھتے ہیں اور پڑھنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار بھی اسی زبان میں کرتے ہیں۔ ’جوکر‘ سے پہلے وہ میرے دونوں ناولوں پر اظہار خیال کرچکے ہیں اور ان دونوں رایوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ ہے : ان کی خودسپردگی۔ پڑھتے وقت جس طرح کسی ایماندار قاری کو اس پر لکھنے کا خیال تک نہیں آتا ، اسی طرح خورشید اکرم پڑھتے ہوئے خود کو کتاب کے حوالے کردیتے ہیں۔ اب وہ کتاب خورشید اکرم سے خود لکھوالے تو علیحدہ بات ہے، وہ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے مطالعے کے بعد کے نجی تاثرات بیان کرتے ہیں جو ظاہر ہے ان سیکڑوں قارئین سے زیادہ فی البدیہہ ہوتے ہیں جس سے اختلاف کے باوجود اس کی ایمانداری پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ خورشید اکرم کا ’جوکر ‘ پر تبصرہ میں اس ناول کے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔ آپ خود ان تاثرات کو پڑھیے اور دیکھیے کہ کیا اس میں دھڑکن سنائی نہیں دی رہی؟: اشعرنجمی]


کسی دوست کی کتاب پر کچھ لکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ کو بار بارخود کویہ یاد دلانا پڑتا ہے کہ دوستی اپنی جگہ۔۔۔ یہ مشکل تب اور بڑھ جاتی ہے جب اس کتاب کا انتساب ہی آپ کے نام ہو۔ اشعرنجمی کا نیا ناول ‘جوکر’ سامنے ہے اورفی الوقت اسی امتحان سے دوچارہوں۔
اشعرنجمی کوبطورمدیرکون نہیں جانتا اورکون نہیں مانتا۔ مگرپچھلےڈیڑھ دو سال میں ایک دوسرااشعرنجمی ہمارے سامنےآیا ہے۔۔۔ناول نگاراشعرنجمی جس نےاگر مدیر کوپیچھےنہیں چھوڑا توکم ازکم اس سے پچھڑابھی نہیں۔ ان کا پہلا ہی ناول (‘ اس نے کہا تھا’) اردوادب میں ایک ہنگامہ برپا کرگیا۔ ابھی اس ناول کو سرہانے سے اٹھا کرشیلف میں رکھا ہی تھا کہ دوسرا ناول ‘صفر کی توہین’ بڑھے ہوئے ہاتھوں تک آ گیا۔ پہلا ناول کچھ اور تھا۔ دوسرا یکسر کچھ اور نکلا۔ بناوٹ میں بھی اور بُناوٹ میں بھی۔ دوسرے ناول پر پہلے ناول کا کوئی اثر نہیں، الّا یہ کہ ایک فکری گہرائی ہے جو رہ رہ کر یہ یاد دلاتی ہے کہ اس راوی سے کہیں پہلے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔
اس دوسرے کے بعد اب تیسرے کے بارے میں بھی اوپروالی بات ہی دوہراوءں گا مگر اس بار پچھلے ناول کی فکری گہرائی نہیں اس کا وٹ (Wit) قدر مشترک ہے۔ ‘صفر کی توہین’ میں ایک خاص قسم کا وٹ تھا جو گاہے گاہے خندہ زیر لب بن جاتا تھا وہ اس بارہنسنے پر بھی مائل کرگیا۔
اس ناول کے بارے میں اشعر نجمی نے پیش لفظ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر چہ اشاعت کے اعتبار سے یہ ان کا تیسرا ناول ہے لیکن باعتبار تخلیق پہلا۔ نقش اول کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ پوت کے پائوں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ مگر میں فی الحال اس بات کو یہیں چھوڑ کران کے دیباچے میں درج دواورنکات پرتوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات: وارث علوی نے جدید افسانے کی عجیب الہیتی کی تادیب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ٹیڑھی لکیر کھینچنے کا حق اسی کو دوں گا جسے سیدھی لکیر کھینچنا آتا ہو۔ مطلب یہ کہ جسے راست بیانیہ لکھنا نہیں آتا ہے وہ علامتی افسانہ نہیں لکھ سکتا۔ اشعر نے اس صداقت کو گویا اپنے لیے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور ‘اس نے کہا تھا’ جیسی ایک بہت ہی پیچیدہ ٹیڑھی میڑھی غیرروایتی لکیر کھینچنے سے پہلے ایک سیدھی لکیر با لکل صحیح صحیح کھینچ کر کھل کھیلنے کا استحقاق حاصل کرلیا۔ حاصل یہ ناول ہے۔ دوسرے نکتہ کا تعلق اسی کھیلنے سے ہے۔ ایک بات جو بہتوں کو بہت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے اور بہتوں کو کبھی نہیں وہ بات اشعرکوپہلےمرحلےمیں ہی سمجھ میں آ گئی۔۔۔ کہ ہر بار جب کھیل بدلتا ہے تواس کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ ناول نگار کو ہرنئے ناول کو نئے تقاضوں کے مطابق لکھنے کی جرات کرنا ہوگا۔ اوریہ کام کم ازکم اب تک انہوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا ہے۔ موضوع اورمواد سے قطع نظراپنی طرزنگارش میں بھی تینوں ناول ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ بلکہ تیسرا ناول پہلےسے اتنا مختلف ہے کہ اگرنام بتائے بغیرکسی کو پہلا اورتیسراناول پڑھوایا جائے توشاید پڑھنےوالےکوگمان بھی نہ ہوگا کہ دونوں کا مصنف ایک ہی شخص ہے۔ کسی مصنف کی خوبی متعین کرنے کی یہ کوئی واحد یا بڑی وجہ نہیں ہو سکتی، لیکن جب مصنف اس بات کا شعوری التزام کر رہا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہے تو یہ ایک بڑی خوبی تولازما بن جاتی ہے۔
اتنی بات کرنے کے بعد ناول کے موضوع، مواد اور پلاٹ پرراست بات کرنا گویا سپاٹ بیانی ہو گی۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ناول کی ابتدا ہی ایک کا مک سچویشن سے ہوتی ہے جب ایک افسر اپنے ماتحتوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور تب پتہ چلتا ہے کہ وہ کیسا چ غ د ہے ۔ اس کے بعد وہ اسمارٹ بننے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب قاری متجسس کہ وہ بنا کہ پھر بن گیا۔ پورا ناول کامک سچویشن سے بھرا ہے۔ ایسی سچویشن کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ بظاہرجو کرداراس پوری مضحکہ خیزی کا شکار ہے وہ آخر کو ایک بڑا فراڈ نکلتا ہے اور جو پوری صورتحال کو اپنی انگلی پر نچاتا ہے آخرمیں ٹھگ لیا جاتا ہے اس ناول میں میں یہی ہوا۔ ناول کا مرکزی کردار ہی نہیں کئی ذیلی کردار بھی کامک سچویشن سےدوچار ہوتے ہیں اورآخر میں اپنا پچھاڑا بچا کر بھاگتے نظر آتے ہیں۔
ناول کے کرافٹ میں ایک چیز جو بہت تخلیقی سطح پر برتی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سیچویشن کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور کس طرح اپنے منطقی انجام کو، جو بالعموم (Paradoxical) پیراڈوکسکل ہوتے ہیں، پہنچتے ہیں۔ زبان اتنی ماڈرن ہے کہ جیسے ہر لفظ اس کے کرداروں اور سچویشن کے اندرون میں اتر کرچنا گیا ہے۔ کوئی لفظ کسی کردار کے حرکت یا عمل یا اظہار میں حارج نہیں ہوتا، مداخلت نہیں کرتا رخنہ نہیں ڈالتا۔ دوانجینئر جو دو الگ الگ ڈسپلن سے آئے ہیں اپنی اپنی ٹیکنیکل اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہوئے گویا ایک ایسی زبان ( Vocabulary) میں بات کرتے ہیں جو استعاراتی بھی ہے اوراشاراتی بھی۔ یہ زبان ان کرداروں کی اس وقت کی داخلی صورتحال کی بھی ترجمانی کرتی ہے اور ان کی مضحکہ خیزیوں کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اس باعث ان دونوں کے درمیان ہونے والے مکالموں کی چمک دمک غیرمعمولی ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک Farcical ناول ہے لیکن اس کا Methodical ہونا اس کو بظاہرایک سنجیدہ لباس پہنا کراسٹیج پرلاتا ہے۔ پھردھیرے دھیرے کرداروں کے کسٹیوم ایک کر کے الگ ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ‘جوکر’ پوری طرح سے اپنے حلیے میں سامنے آجاتا ہے۔ وہ جو ابھی تک ہنس ہنس کے آپ کو ہنسا رہا تھا وہ آخر میں خود رونے لگتا ہے ۔ طربیہ کی کوکھ سے المیہ برآمد ہوتا ہے اوراب تماشائی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس پر ہنسے کہ روئے ۔ ایسے کردار جو اپنی حماقتوں سے آپ کو ہنساتے رہتے ہیں کچھ وقت کے بعد آپ اس سے ہمدردی کرنے لگتے ہیں کیونکہ آپ جان جاتے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ کسی بھیانک حادثے کا شکار ہو گا اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو آپ یہ سوچتے ہیں کہ اپنی دنیا کوصدہزاررنگ بنانے والے خالق کو ایسے عقل سلیم سے عاری کردار پیدا کرکے کیا خوشی حاصل ہوئی ہوگی۔
ناول بیانیہ کی گہرائی اورموضوع کی سنجیدگی کے لیے تو نہیں لیکن اپنی اسمارٹ رائٹنگ کی وجہ سے ضروریاد رکھا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply