پہلی جنگ عظیم۔ پہلی قسط (آخری حصہ)۔۔۔۔آصف خان بنگش

پہلی جنگ عظیم۔ پہلی قسط (پہلا حصہ)۔۔۔۔آصف خان بنگش

طبل جنگ

سراہیوو کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ سرب آرمی آفیسرز نے خفیہ طور پر اس قتل میں حصہ لیا ہے لیکن ان کا ردعمل بھی باقی دنیا کے جیسا تھا کہ سربیا نے خود ہی ٹریگر دبایا ہے۔ پرو آسڑیا لوگوں نے سربیا میں دکانیں، سکول حتی کہ چرچز کو بھی نقصان پہنچایا اور لوٹ مار کی۔ تقریبا 200ً سے اوپر سرب سراہیوو میں گرفتار کیے  گئے۔ مقامی انتظامیہ نے کچھ کو شہر کی جیل میں پھانسی دی اور بہت سارے لوگ بوسنیا اور ہرزگووینیا میں منظم طریقے سے قتل ہوئے۔ فرانز فرڈیننڈ اور صوفی کا جنازہ 4 جولائی کو ادا ہوا۔ آسکر پاٹیورک (Oskar Potiorek) جو کہ ایک فوجی افسر تھا اور بوسنیا کا گورنر بھی تھا۔ یہ فرانزز اور صوفی کے ساتھ کار میں موجود تھے، نے خارجہ امور کی وزارت کو لکھا کہ سربیا سے بدلہ لینا چاہیے تا کہ بادشاہت کو کچھ دہائیاں اندرونی سکون نصیب ہو۔ آسڑیا کے چیف آف سٹاف کانریڈ ہاٹزنڈارف نے بھی یہی کہا کہ یہ کسی ایک جنونی کاکام نہیں ہے۔ یہ قتل سربیا کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اگر ہم نے اس موقع کو گنوا دیا تو بادشاہت کو اندرونی خلفشار سے نہیں بچایا جا سکے گا۔ ولی عہد جو کہ اپنی زندگی میں سربیا کے ساتھ پرامن تعلق کا علمبردار تھا مرنے کے بعد جنگ کی وجہ بن گیا تھا۔

ولی عہد کے قتل سے فی الوقت یورپ میں کوئی آگ نہیں لگی بین الاقوامی تناؤ  تھا اور جولائی میں قدرے کم رہا۔ لیکن ویانا میں آسڑو ہنگیرین لیڈر سربیا کے دوستوں کو خاطر میں لائے بغیر سربیا سے بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حتی کہ اس قتل سے پہلے بھی آرمی چیف نے سربیا سے جنگ کرنے کی بات کچھ 20 سے زائد مرتبہ کی تھی۔ اب کے اس کا کیس مضبوط تھا۔ شہنشاہ نے بھی اس کی تائید کی۔ شاہ کو ڈر تھا کہ حملہ کے بعد روسی بیچ میں نہ  کود پڑیں لیکن چیف نے انہیں یقین دلایا کہ جرمنی ہماری پشت پناہی کرے گا۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب بلقان کی جنگ پہلی جنگ عظیم کا روپ دھارنے  والی تھی۔ شاہ جوزف نے جرمن کائزر (Kaiser) سے مدد مانگی۔ جرمنی نے آسٹریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اسے اس کے نتائج کا ادراک نہیں تھا۔ یورپ دو کیمپس میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف جرمنی، آسڑیا ہنگری اور اٹلی تھے جب کہ دوسری طرف فرانس اور روس۔ ایک سے جنگ کا مطلب دوسری سے بھی جنگ تھا۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ روس کا ردعمل کیا ہوگا اگر کسی بھی بلقان کے ملک پر حملہ کیا گیا۔ اگر روس دفاع کو آئے گا تو جرمنی بھی جنگ میں کود پڑے گا۔ جرمنی کا خیال تھا کہ روس جنگ میں نہیں کودے گا کیوں کہ ایسا کرنے سے اسے اندرونی انقلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جرمن چانسلر ہالوگ (Hollweg) پر اعتماد تھے کہ سربیا کا جرم ناقابل معافی تھا اور روسی اس سے متنفر ہونگے۔ لیکن یہ جرمنی کی یقین دہانی تھی جو آسٹریا کو جنگ کرنے کی دعوت دے رہی تھی۔ جرمنی اس یقین دہانی کے باوجود حالات کو ہلکا لے رہا تھا اور اس کا ثبوت یہ تھا کہ جرمن کائیزر ان دنوں چھٹی منانے چلے گئے۔ اسی دوران سراہیوو میں پرنسپ کا مقدمہ چلا اور معلوم ہوا کہ اس کا ساتھ سربیا کے فوجی افسران نے دیا ہے۔ جرمنی کے تعاون کے بعد یہ بات آسٹریا کے لیے کافی تھی۔ پرنسپ کو 20 سال کی سزا ہوئی جہاں وہ 1920 میں فوت ہو گیا۔ آسٹریا نے سربیا کو ایک الٹی میٹم بھیجا جو کہ جنگ کا بہانہ تھا۔ اس کی ڈیمانڈز سربیا کے لئے قابل قبول نہیں تھیں۔ اگر وہ اسے قبول کرتے بھی تو بھی بلغراد میں موجود ایمبیسیڈر کو یہ حکم تھا کہ وہ کسی بھی جواب کو ناقابل قبول ٹھہرا کر رد کر دے۔ 23 جولائی 1914 کو یہ الٹی میٹم دی گیا اور اس کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ فرانس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور پیرس شہر مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اطالوی سفیر آئرلینڈ میں تھا، جرمن کائیزر ناروے میں اپنی ناو میں موجود تھے جب آسٹریا نے یہ الٹی میٹم دیا۔ انہیں یہ پیغام سنایا گیا تو انہوں نے کہا اس کا مطلب تو جنگ ہے لیکن سربیا کبھی بھی جنگ کی طرف نہیں جائے گا۔

شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن 24 جولائی کو سربیا کے ریجنٹ (Regient) نے روسی وزیر خارجہ کومدد کیلئے پیغام بھیجا۔ روس نے برطانیہ سے بات کی اورروسی سفیر نے یہ عندیا دیا کہ آسٹریا کبھی بھی جرمنی کی مدد کے بغیر یہ اقدام نہیں کر سکتا تھا۔ اوریہ کہ روس چاہتا ہے کہ برطانیہ دیر کیے بغیر خود کو روس اور فرانس کا اتحادی نامزد کر دے۔ روس کو یقین تھا کہ جرمنی جنگ چاہتا ہے اور اس نے اپنی ریزرو فوج بلا لی۔ یہ بحران کا دوسرا مرحلہ تھا، برطانوی سیکرٹری خارجہ ایڈورڈ گرے (Edwerd Grey) نے 28 جولائی کو وارننگ دی کہ جس لمحہ سے لڑائی سربیا اور آسٹریا کے بیچ سے نکل کرایک عالمی طاقت کے ہاتھ میں چلی جائے تو اس سے صرف تباہی ہی حاصل ہوگی جو یورپ نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ آسٹریا-ہنگری نے اسی دن سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ جنگ کی پہلی گولی آسٹریا کے قلعے زیمن (Fortress of Zemun) سے چلی جو بلغراد کے دریا کے اس پار ہے۔
طبل جنگ بج چکا تھا۔
عثمانیوں نے بلغراد کو (House of Wars) جنگوں کا گھر کہا تھا۔ آج پھر آسٹریا اپنی پوری طاقت سے شہر پر حملہ آور تھا۔ بھاری اسلحہ سے لیس کشتیاں پاگل کتوں کی طرح شہر کے گرد دندنا رہی تھیں۔ ابھی بھی یہ صرف آسٹریا اور سربیا کی جنگ تھی۔ 29 جولائی کو شہر پر شیلز کی بارش ہو رہی تھی اور یورپ کے لیڈرز ایک دوسرے کے رابطہ میں تھے۔ زار اور کائیزر، ایک کزن دوسرے کزن سے مخاطب تھا۔ (جرمن کائیزر اور رشین زار ایک دوسرے کے کزن تھے، اور جرمن کائیزر شہنشاہ برطانیہ کے بھی رشتہ دار تھے)۔ دونوں آخری وقت تک ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے رہے لیکن اب بات ان کے بس سے نکل چکی تھی۔ جس لمحہ روس نے اپنی فوج کو حرکت دی جرمن جنرلز جان چکے تھے کہ اب وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

فرانس اور روس کے اتحاد کا مطلب تھا کہ جرمنی کو دو فرنٹس پر لڑنا پڑے گا۔ ان کیلئے امید یہ تھی کہ وہ فرانس سے نمٹ لیں اس سے پہلے کہ روس مشرق سے حملہ آور ہو۔ روسی افواج کی حرکت جرمنی کیلئے اعلان جنگ تھا۔ جرمن جنرلز جنگ نہیں چاہتے تھے انہیں معلوم تھا کہ جنگ ہوئی تو طویل ہوگی اور جیتنے والے کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لیکن یہ تو ہو کر رہے گا تو ابھی سہی۔ جرمنز کا مشاہدہ تھا کہ کچھ سالوں میں روس انتہائی طاقتور ہو جائیگا اور تب وہ ہمیں چاروں شانے چت کردے گا، اس لئے یکم اگست کو جرمنی نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اور دو دن بعد اس نے روس کے حلیف فرانس کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کردیا۔

تمام یورپ سے تقریبا 10 لاکھ لوگ جنگ کو روانہ ہوئے، لہراتی جھنڈیوں اور گیتوں کے بیچ بہت سے ایسے تھے جو کہ بددل ہو کر جارہے تھے۔ جرمنی، آسٹریا، سربیا، فرانس اور روس سب کا یہ خیال تھا کہ وہ ایک دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں جو ان پر مسلط کی گئی ہے۔ واحد یورپی قوت جو ابھی جنگ سے باہر تھی وہ برطانیہ تھی۔ اور یہ واحد قوت تھی جو یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ جنگ ان پر مسلط کی گئی ہے۔ نہ تو کسی نے اس پر حملہ کیا تھا، نہ ہی اسے سربیا کے دفاع کی ضرورت تھی۔ مانچسٹر گارجین کے مطابق اگر سربیا کو اکھاڑ کر سمندر میں پھینک دیا جائے تو یورپ کی فضا تعفن سے پاک ہو جائے گی۔ تو پھر برطانیہ کو جنگ میں کودنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

برطانوی سیکرٹری خارجہ گرے نے پارلیمان کو بتایا کہ وہ فرینکو رشین الائنس کا حصہ نہیں نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ معاہدہ کے نکات کیا ہیں۔ لیکن گرے اور باقی لیڈرز کو معلوم تھا کہ انہیں لڑنا پڑے گا۔ اگر برطانیہ اس جنگ میں غیر جانبدار رہتا تب بھی اس کی وسیع سلطنت کو خطرہ رہتا، اس کی تجارت کو خطرہ رہتا۔ امن کے دور میں بھی برطانیہ اتنا طاقتور نہیں تھا کہ ان تمام قوتوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا۔ افریقہ اور بھارت میں بھی برطانوی کالونیاں فرانس اور روس کی مدد کی وجہ سے قائم تھیں۔ 1914 میں برطانیہ اپنے دوستوں سے بھی اتنا ہی خوفزدہ تھا جتنا وہ اپنے دشمنوں سے۔ اگر وہ روس کا ساتھ نہ دیتا تو ایشیاء میں روسی تعاون سے محروم ہو جاتا۔ اور نہ ہی وہ یورپ میں جرمنی کا راج چاہتا تھا کیوں کہ ایسے میں وہ سمندر میں برطانوی طاقت کو زیر کر سکتا تھا۔ وزیراعظم نے بھی یہ امر ظاہر کیا کہ فرانس کا ختم ہونا بھی برطانیہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور یوں 4 اگست رات کو 11 بجے برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ برطانیہ طاقتور سمندری طاقت کے ناطے پانی میں جنگ لڑے گا، اور برطانیہ کو بھی اپنی نیوی پر ناز تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جنگ میں جانے سے انہیں اس سے تھوڑا سا زیادہ نقصان ہوگا جتنا ان کو غیر جانبداررہنے سے ہوگا۔ لیکن جن ہتھیاروں کے ساتھ یورپ جنگ میں جارہا تھا وہ بہت سے ممالک نے استعمال بھی نہیں کیے تھے۔ بیٹل شپس اور سب میرین دس سال پرانی بھی نہیں تھیں۔ انہیں کیسے استعمال کرنا ہے کوئی نہیں جانتا تھا۔ تمام یورپی ممالک نے اسلحہ ذخیرہ کیا تھا لیکن 40 سال سے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی تھی۔ سربیا اور آسٹریا کیلئے یہ قومیتوں اور نسلوں کی جنگ تھی۔ جنگ کے پہلے مہینے 4000 سربوں کو قتل کیا گیا۔ ان کے مکان جلا کر ان کی خواتین کا ریپ کیا گیا۔ تمام کے تمام خاندانوں کو ذبح کیا گیا۔ منظم طریقے سے سربوں کا قتل عام کیا گیا۔ عام عوام کیخلاف فوج کی کاروائی سربین فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھناونی تھی۔ یہ ان کی جرمن سے اتحاد کیلئے نقصان دہ تھا۔ جرمنی مشرقی فرنٹ پر اپنی حلیف آسٹریا ہنگری پر منحصر تھا جس کی سرحدیں روس سے لگتی تھیں۔ جرمنی کو اس بات سے حیرت ہوئی کہ آسٹریا نے اپنی پوری طاقت سربیا کے خلاف لڑا دی۔ سربیا کی فوج نے 12 اگست کو سر پہاڑی رینج کے پاس دفاعی پوزیشن لی اور آسٹرینز کو آگے آنے دیا۔ جب وہ اس کی جال میں پھنس گئی تو سرب توپیں ان پر آگ برسانے لگیں۔ سربوں نے آسانی سے یہ حملہ ناکام بنا دیا، آسٹریا کی فوج وہاں سے پسپا ہوگئی۔ آسٹریا نے سوچا تھا کہ وہ سربوں سے انتقام لیں گے اور فرڈیننڈ کے قتل کا بدلہ لیں گے لیکن سرب فوج نے ان کی فوج کو تتر بتر کر دیا تھا۔ اس لڑائی میں 1 لاکھ 30 ہزار سرب مارے گئے۔ ان کی یادگار پر یہ الفاظ کندہ ہیں ” وہ رائیگاں نہیں مرے” (They did not die in vain)
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلی قسط میں جرمن فوج کی فرانس اور بیلجئم پر یلغار جس نے ظلم و جبر کی داستانیں پیچھے چھوڑیں اور فرانس کا برطانیہ کے سنگ اپنی بقا کی جنگ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply