؎شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
انسان کی درسگاہِ اوّل اس کی ماں کی گود ہے جہاں وہ پہلا لفظ ادا کرنا سیکھتا ہے اور پھر تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ پھر ماں ہی اس بچے کو زمانے کی گرم و سرد سے مانوس کرنے کے لئے اپنے لختِ جگر کو استادکے حوالہ کر دیتی ہے۔ انسان ابتدائی طور پر ایک بے قیمت پتھر ہوتا ہے۔جس پر تراش خراش کر کے استاد اسے ہیرا بنا دیتا ہے۔ ماں باپ جس بچے کو انگلی پکڑ کر قدم قدم چلنا سکھاتے ہیں استاد اسے دنیا کا سامنا کرنا سکھاتا ہے اور پھر آفاق کی بلندیوں میں اُڑنا سکھا دیتا ہے۔
تعلیم کا یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے قائم و دائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ بنی نوع انسان کی ہر طرح کی ضرویات پوری کرنے کے متعلق اس دنیا میں سامان مہیا کیے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر انسان کو باشعور کرنے کے لئے اسے علم جیسی لازوال دولت عطا کی۔ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی خود کلمات اور اسماء سکھائے۔ فرمایا کہ : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقرة:31) کہ اللہ نے آدم کو تمام کے تمام اسماء سکھائے۔پھر اس زمانے کی آخری شریعت کی ابتداء بھی انہی الفاظ میں کی کہ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ o (العلق: 1)
یعنی اللہ کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا ! پھر فرمایا کہ:
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْo (العلق:4-5)
یعنی جس نے قلم کے ساتھ سکھایا ۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اس زمانے کے سب سے بڑے معلم رسول کریم ﷺ نے بنی نوع کو ایسی تعلیم دی کہ وہ عرب کے لوگ پُشتوں کے بگڑے ہوئے جاہل اور اُجڈ تھے ، معمولی باتوں پر کئی سالوں تک جنگیں کرتے رہے،ایسی قوم کو علم کی بدولت فرش سے اُٹھا کر عرش پر بٹھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ إنَّمَا بُعِثْتُ مُعلِّـمًا(ابن ماجه: 229) کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ پھر تمام مسلمانوں کو اپنی پوری زندگی علم کی جستجو کے لئے لگانے کا ارشاد فرمایا۔ اطلبو العلم ولو کان بالصین یا اطلبوا العلم من المھد الی اللحد جیسی احادیث تعلیم کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ اور انسان تعلیم حاصل کر کے ایک اچھا اور بہترین معلم بنتا ہے بقول شاعر:
وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
(لالہ مادھو رام جوہر)
استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل تھی اور رہی ہے۔ وقت اور زمانے نے کروٹ بدلی اور نئے زمانے کی جدت نے ہر شے کوبدل دیا،روایتیں اور تہذیبیں بدل گئیں،لیکن استاد اور شاگرد کا احترام اور پیار کا رشتہ نہیں بدلا۔ نہ صدیوں کی طوالت نے اِس احترام کو ختم کیا، اور نہ ہی وقت کی تیز رفتاری شاگرد کی اپنے استاد کے ساتھ بے پناہ اور بے لوث محبت پرمکمل طور پر اثر انداز ہوسکی۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں(اقبال)
تعلیم و تربیت کا محور و منبع استاد ہی ہے۔ استاد کو ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ استاد سے ہی مہذب، پر امن اور باشعور معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے بھی اپنے استاد کی قدر کی تو اس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں کامیاب وکامران ہوئی۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں استاد کوجو عزت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ استاد ہی کامیابی کی ضمانت اور علم کا مینار ہے جو اندھیرے میں روشنی کی کرن بنتا ہے ۔ استاد ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی و رفعت پر پہنچادیتی ہے۔ استاد ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کے بغیر کسی طور پر مکمل نہیں ہو سکتا۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ’’ برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں ۔ اس لئے میں چالان جمع نہیں کرسکا۔ تو جج نے کہا The Teacher is in the court اور پھر جج سمیت سارے لوگ احترماً کھڑے ہوگئے۔ اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جا ن گیا‘‘۔
(تفصیلی واقعہ :زاویہ، ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں صفحہ 45)
دین اسلام اور اساتذہ کی عزت
ہمارے دین نے استاد کی تعظیم سکھائی ہے۔ صحابہ کرام رسول اللہﷺ سے تعلیم و تربیت کے لئے مسجد کے ہی ہو کر رہ گئے اور اصحاب الصفہ کہلائے۔ حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔‘‘(تعلیم المتعلم ۔21)
دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر
شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استا کے سامنے باادب دوزانوہوکر بیٹھے،استاد کے برابر نا بیٹھے، موٴدبانہ گفتگو کرے، زور سے نہ بولے، استاد سے فراغت کے بعد بھی ملا قات کرتا رہے، فراغت کے بعد استاد کو بھول جانا حق تلفی ہے۔طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاد کا ادب اور خدمت اپنے لیے ضروری سمجھے۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
(الطاف حسین حالی)
تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ صاحبِ ھدایہ نے ائمہ بخارا میں ایک بڑے عالم کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن یہ عالم درس میں بیٹھے ہوئے تھے، یکا یک کھڑے ہوگئے ،دریافت کرنے پر فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، جب کھیلتے ہوئے مسجد کی طرف آیا تو میں اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوگیا۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
رَأیْتُ اَحَقَّ الْحَقِّ الْمُعَلِّم
وَاَوْجَبُہ حِفْظًا علٰی کُلِّ مُسْلِم
لَقَدْ حَقَّ اَنْ یّھدٰی اِلَیْہِ کَرَامَةً
لِتَعْلِیْمِ حَرْفٍ وَّاحِدٍ اَلْفُ دِرْھِم
سب سے بڑا حق تو استاد کا ہے، جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے،واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھایااس کامستحق ہے کہ ہزار درھم اس کے لیے ہدیہ کیے جائیں۔ بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔جو شخص اپنے استاد کی تکلیف کا باعث ہو وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے منتفع نہیں ہو سکتا ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے :
اِنَّ الْمُعَلِّمَ وَالطَّبِیْبَ کِلَا ھُمَا لَا
یَنْصَحَانِ اِذاَ ھُمَا لَا یُکْرَمَا
فَاصْبِرْ لدَائِکَ اِنْ جَفَوْتَ طَبِیْباً
وَاقْنَعْ بِجَھْلِکَ اِنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمًا
استاد اور طبیب کی جب تک تو قیر اور تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے،بیمار نے اگر طبیب کے ساتھ بدعنوانی کی ہے تو اس کو ہمیشہ بیماری پر قائم رہنا پڑے گا اور شاگرد نے اگر اپنے استاد کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو ہمیشہ جاہل رہے گا۔
منیر شکوہ آبادی نے تو اپنی تعریف کا سارا سہرا اپنے استاد سے منسوب کر دیا ۔
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
؎ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کی عزت کریں اور ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں۔ اور اپنے اساتذہ کی عزت کریں اور ان کے لئے خدا تعالی کے حضور دعا بھی کریں۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں