جذبہ قربانی۔۔۔ حسام درانی

آٹھ سال پہلے کی بات ہے قربانی کے لیے بیل کو جیسے ہی گرایا تو ایسے محسوس ہوا جیسے دل ایک دم گر گیا ہو، اور چھری اس کی گردن پر پھرتے ہی خون کی پہلی دھار نکلی تو نا جانے کیوں آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں۔۔تکبیر پڑھتے پڑھتے آواز بھر گئی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے چھری اس جانور کے گلے پر نہیں بلکہ میرے دل پر چل رہی ہے۔
پہلے تو میں یہ سمجھا کہ زندگی میں پہلی بار بیل کو خود ذبح کیا شاید اس وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہو،
اس کے بعد پورا سال کئی دفعہ تجربہ کیا ،مرغ، بکرا، خرگوش اور جنگلی پرندے شکار کئے، ذبح کئے لیکن وہ کیفیت دوبارہ طاری نہ ہوئی، لیکن جیسے ہی قربانی کا جانور نیچے گرایا جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ اس کے ساتھ ہی دل بھی دھڑام سے نیچے گرتا ہے۔۔پورے خاندان میں میرے بارے میں مشہور ہے کہ میں کافی سخت دل ہوں، لیکن اس ایک دن اور اس خاص موقع پر نہ جانے کیوں آنکھیں بھر آتی ہیں۔اب پچھلے تین سال سے اس کیفیت میں اور بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا، کیونکہ یہ تیسرا سال ہے کہ بچھڑا کوئی 6 ماہ پہلے ہی خرید لیتا ہوں اور گاؤں میں اپنی نگرانی میں پالتا ہوں،پچھلے سال تو حالت یہ ہو گئی تھی کہ جب قصائی نے بچھڑے کی رسی پکڑی ہی تھی کہ آنکھیں بھر آئیں اور آواز رندھ گئی۔اس سال کیا ہو گا اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

یہ تو ہو گئی میری بات لیکن کل ایک دوست کی ہمراہی میں اس کی قربانی کا جانور خریدنے کے لیے قریب ہی لگی ایک منڈی جانے کا اتفاق ہوا، ایک بکرا پسند کیا مول تول کے بعد پیسے دیے، رسی پکڑی تو فورا ًایک ہلکی عمر کا لڑکا سامنے آ گیا اور بولا کہ سر جی میں چھوڑ آتا ہوں، میں سمجھا کہ ویسے ہی سو، پچاس روپے کے لیے کہہ رہا  ہے۔میں نے منع کیا تو اس لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، جس سے بکرا خریدا تھا وہ بولا صاحب جی میرا بھتیجا ہے، اسے شوق ہے پیسوں کے لیے نہیں، جو ہمارے مقدر میں تھا وہ ہمیں مل گیا۔
یہ سن کر میں ایک دم ڈھیلا ہو گیا اور دوست بولا یار خان چل اسے لے جانے دے، دوست آگے، بکرے والا درمیان میں اور میں آخر میں چل رہا تھا، اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہ لڑکا رو رہا ہے اور بار بار آنکھیں ہتھیلی سے صاف کر رہا ہے اور جیسے ہی ہم منڈی سے باہر نکل کر موٹر سائیکل کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ واقعی رو رہا تھا اور بکرے کو گلے لگا کر اسکو بار بار چوم رہا تھا۔یہ بات میرے لیے بالکل نئی تھی میں اب تک اس جذبے و محبت کو سمجھ نا سکا ہوں۔

پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک عجیب سی بحث شروع ہو گئی جس کا حاصل شاید کچھ نا ہو، لیکن ایک طبقہ قربانی کے خلاف ہے، شاید وہ انجمن حقوق جانور کے ممبران ہیں جو کہ جانوروں کے ذبح کرنے اور ان کے گوشت خوری کے خلاف ہیں اور دوسرا طبقہ اس قربانی کے حق میں ہے، دونوں اطراف کے عمائدین اپنے اپنے دلائل کی تیزی اور کاٹ دکھا رہے ہیں، کبھی ایک پلڑا بھاری ہوتا ہے تو کبھی دوسرا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن میرا سوال ان دونوں طبقوں سے ہے کہ میری ایسی حالت کیوں ہوتی ہے، جیسے ہی جانور کی گردن پر چھری پھرتی ہے تو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے جیسے کلیجہ کٹ سا گیا ہو، جب اس لڑکے نے جانور پا لے ہی بیچنے کے لیے تھے تو بیچنے کے بعد بار بار گلے کیوں لگا رہا تھا ؟کیوں ایک جانور کو چوم رہا تھا۔۔ہے کسی کے پاس اس کا جواب۔۔۔لیکن مجھے تو بس اتنا ہی سمجھ آیا کہ قربانی تو ایک جذبے کا نام ہے اور سب سے محبوب چیز کا اپنے رب کی رضا میں دینا ہی قربانی ہے۔قربانی وہی ہے جس کو دیتے ہوئے آپ کا اپنا دل کٹ جائے، آنکھوں سے آنسو نہیں بلکہ لہو رواں ہو جائے، چاہے وہ پالنے والا ہو یا خرید کر قربانی کرنے والا، رب بہتر جانتا ہے اور وہ ہی دلوں کے بھید جانتا ہے۔

 

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply