ہمیں نہ مارو کہ ہماری مائیں روتی ہیں۔۔۔رمشا تبسّم

دو دن پہلے لاہور میں ہربنس پورہ کے علاقے میں پولیس نے فائرنگ کر کے ایک نوجوان شہری سمیع کو قتل کیا۔بعد از قتل سمیع کو ڈکیٹ قرار دے دیا گیا۔پولیس نے ثبوت میڈیا پر جلد از جلد لانے کا دعویٰ  کیا۔مگر پولیس اب کسی قسم کا ثبوت دینے میں ناکام ہے۔پولیس کے مطابق سمیع کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں۔اب مرنے والے کا مجرمانہ ریکارڈ ہو یا نہ  ہو، مرنے والا مر گیا۔اہل خانہ کو نوجوان کی موت کا دکھ اور اس کو ڈکیٹ قرار دینے کی ذلت ہمیشہ سہنی پڑے گی۔کچھ عرصہ قبل ڈولفن پولیس نے ایک ذہنی مریض کو گولی ماری ،اہلکاروں کے بقول وہ ذہنی مریض ان پر چھری سے حملہ کر رہا تھا۔پانچ سے چھ ڈولفن کے اہلکار وں نے اس ذہنی مریض کو قابو کرنے کی بجائے اس کو گولی مار کر ڈکیٹ قرار دے دیا۔

فیصل آباد میں گزشتہ برس تین نوجوانوں کو موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے گولی مار دی جاتی ہے۔جن میں سے دو نوجوان موقع پر ہلاک ہو جاتے ہیں اور ایک ہسپتال دو دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد فوت ہو جاتا ہے۔

ساہیوال واقعہ  کسی سے چھپا نہیں۔جس میں خلیل کی فیملی پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے۔خواتین اور بچوں کا لحاظ کیے بغیر سب پر حملہ کیا جاتا ہے۔چار لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔اور پھر ان کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔اور ہم نے انہی دہشت گردوں میں چار سے آٹھ سال تک کے بھی تین خطرناک دہشت گرد فیڈر ہاتھ میں اٹھائے دیکھے اور مرنے والوں میں ایک 13 سالہ دہشت گرد اریبہ بھی تھی ۔
اس طرح کے کئی  واقعات آئے روز سامنے آتے ہیں، ہر واقعے  پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
تین سال قبل میں نے بنک میں کام شروع کیا۔ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک صبح وکیل ایک خاتون اور ایک نوجوان کے ساتھ حاضر ہوا۔خاتون کی سوجھی ہوئی آنکھیں, لڑکھڑاتے قدم , جھکی گردن عجیب سا منظر پیش کر رہی تھی کہ میں کام کرتے کرتے کچھ لمحے اس خاتون کو دیکھتی رہ گئی ۔ماں کا ہاتھ تھامے چلتا نوجوان اپنی ماں کو مضبوطی سے تھامے ہوا تھا مگر اسکے قدم بھی لڑکھڑا رہے تھے۔کچھ دیر بعد ایک فائل بنک منیجر نے مجھے تھما دی۔فائل کو پکڑا تو اس پر بڑے حروف میں “Deceased person” لکھا تھا۔فائل کو کھولا تو ایک خوبصورت انیس بیس سالہ نوجوان حسن کی تصویر اور مکمل ڈاکومنٹ میرے سامنے تھے۔نو جوان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ موجود تھا جس کے مطابق تین مہینے پہلے فوت ہوا تھا۔

فائل تیار کر کے جب والدہ کو دستخط کے لئے دی گئی  تو وہ زارو قطار رونے لگی اور بد دعائیں دینے لگی۔خدا  ان کو غرق کرے، برباد کرے، جنہوں نے میرے بچے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔روتے روتے وہ خاتون وہیں بے ہوش ہو گئی ۔اور ان کا بیٹا روتے ہوئے ا ن کو گود میں اٹھا کر باہر کی جانب بھاگا۔کچھ دن تک فائل ایسی ہی دراز میں پڑی رہی، جس کو صرف دیکھ کر میرا دل پسیج جاتا، اس کو دوبارہ کھولنے کا سوچ کر بھی مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ایک دن بنک کی طرف سے مرحوم حسن کے گھر دوبارہ رابطہ کیا گیا تاکہ اکاؤنٹ کے متعلق کاروائی مکمل کی جائے تو معلوم ہوا کہ حسن کی ماں اسی دن وفات پاگئی تھی جس دن وہ بنک آئیں تھیں۔

بیٹے کے غم میں رو رو کر ماں تو چلی گئی  مگر فائل پر اس دن اس ماں کے موجود بے شمار آنسو وہیں رہ گئے جو کافی عرصہ میرے دل پر کسی سیلاب کی طرح نازل ہوتے رہے اور میں اس سیلاب کی زد میں آ کر ہمیشہ بے بس ہو کر رو دیتی تھی۔

حسن کو لاہور میں لنک روڈ پر جاتے ہوئے پولیس نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔پولیس کے مطابق ہم نے اس کو روکا تھا اور یہ رکا نہیں آگے بڑھ گیا اور ہم سمجھے کوئی ڈکیٹ ہے لہذا ہم نے جلدی میں اسے گولی مار دی۔

ایسا کیوں ہے کہ عوام بھی قانون ہاتھوں میں لے رہی ہے اور قانون کے محافظ بھی قانون کو کھلونا بنا کر کھیلتے نظر آتے ہیں۔
کیا عوام اور قانون کے محافظ دونوں کو ہی قانون پر کسی قسم کا بھروسہ نہیں؟اور دنوں کی ہی نظر میں قانون کی کوئی اہمیت اور عزت نہیں؟
کسی بھی شخص کو مار کر اس کو ڈکیٹ یا دہشت گرد قرار دے دینا بہت آسان ہے۔مرنے والے کے گھر والے عدالتوں کے زیادہ دیر چکر نہیں لگا سکتے لہذا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور جرم کرنے والے بالآخر آزاد ہو جاتے ہیں۔کہتے ہیں جھوٹ کو اتنا اونچی بولو اور بار بار بولو کہ جھوٹ آپ کے سچ کو دبا دے اور جھوٹ ہی سچ لگنے لگے۔اسی طرح جرم اور مجرم کو اتنا لٹکاؤ, معاملہ اتنا طویل کر دو کہ انصاف مانگتے لوگ دس دس سال دھکے کھائیں اور یا تو انصاف مانگتے مر جائیں یا پھر جرم کے خلاف گواہی اور ثبوت ہی مٹ جائے اور گھر والے اُکتا کر کیس کی مزید پیروی ہی نہ کر سکیں۔جیسا کہ  نقیب اللہ   قتل کیس میں راؤ انوار کے انڈر گراؤنڈ ہو کر عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرنے اور اس کے خلاف واضح ثبوت ہونے کے باوجود , اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب بار بار درخواستیں کرتے رہے اور یقین دہانی کرواتے رہے کہ آپ حاظر ہوں ہم تعاون کریں گے آپ گھبرائیں نہیں۔لہذا ٹھاٹھ باٹھ سے راؤ انوار حاظر ہوئے اور باعزت عدالت سے باہر نکل گئے۔لہذا اس معاملے میں تین سال مرحوم نقیب اللہ کا والد انصاف مانگتے مانگتے اب اللہ کو پیارا ہو گیا۔مرنے والا مر گیا۔قانون انصاف دینے میں ناکام رہا۔اور انصاف مانگنے والا خود ہی مر گیا۔لہذا کیس ختم ہو گیا۔ساہیوال واقع میں فریقین اب تھک ہار کر خاموش ہو گئے۔خیر یہ معاملہ جیسے اور جس نے جس طرح حل کروانا تھا کروا لیا وہ الگ قصہ ہے۔مگر عدالتوں کے سو موٹو نوٹس کام آئے نہ ہی کارروائی کی جا سکی۔

رینجرز کے ہاتھوں 2011میں کراچی میں  دن دیہاڑے ایک نوجوان طالب علم سرفراز کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔گولی مارنے سے پہلے رینجرز کے نوجوان اس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہیں۔اس کو مارتے ہیں۔وہ بار بار ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہے۔اس کے پاس نہ اسلحہ تھا نہ ہی وہ کسی طرح کا جوابی حملہ کرتا ہے۔خالی ہاتھ ہونے اور ہر طرح سے رینجر کے اہلکاروں کی گرفت میں ہونے کے باوجود اس کو گولی مار دی جاتی ہے۔وہ زخمی حالت میں کئی  بار مدد کو پکارتا ہے۔اٹھنے کی کوشش کرتا ہے آخر کار وہ مر جاتا ہے۔اس پر بھی لوٹ مار کا الزام لگایا گیا۔مگر سوچیے اسکی تڑپتے وجود کی ویڈیو اسکے اہل خانہ کے لئے کتنی اذیت کا باعث رہی ہو گی۔

ایک شخص مجرم ہے۔اس کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔وہ مطلوب ہے۔ تو اس کو آرام سے پولیس مقابلے میں جان سے مارنے والے اس کو وقت رہتے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ایک مجرم عام شہری کی طرح سڑکوں بازاروں محلوں میں آزاد پھر رہا ہوتا ہے؟کیوں ایک آزاد پھرتے شخص کو دیکھ کر اچانک قانون کے رکھوالوں کو یاد آتا ہے کہ  یہ مطلوب ہے مجرم ہے لہذا اس کو اب گولی مار دی جائے اور قصہ تمام کیا جائے؟ قانون کے محافظ سڑکوں بازاروں محلوں میں ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا کر خودکار عدالتیں لگا کر وہیں طے کیسے کر لیتے ہیں کہ یہ شخص مطلوب ہے, ڈکیٹ ہے, دہشت گرد ہے لہذا اب اس کو موت کی سزا سنا کر ہم گولی مار دیتے ہیں؟ قانون کےمحافظ ہی قانون پر دھبہ بنتے جا رہے ہیں۔قانون کے محافظوں کے لئے ہی اب قانون, عدالتیں,اور قانونی کارروائی کے طریقہ کار کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ ہی کوئی بھروسہ۔

کچھ دن قبل ایک خاتون نے اپنے بیٹے تسلیم کے قاتل نعمان کو عدالت سے باعزت بری ہونے کے باوجود بھی قتل کر دیا۔ایک طرف اس عورت کی بہادری کو سلام کیا جا رہا تھا دوسری طرف حقائق کو بنیاد بنا کر اس عورت کو اس کے بیٹے سمیت منشیات فروش اور قاتل ثابت کیا جا رہا تھا۔اور تیسری طرف اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا جا رہا تھا۔

اس خاتون کا بیٹا تسلیم جو قتل ہوا وہ منشیات فروش تھا۔تو وہ آزاد کیوں تھا؟ تسلیم اگر قاتل تھا اس پر دو قتل کے پرچے تھے تو وہ آزاد کیوں تھا؟ پھر تسلیم کو قتل کرنے والا نوجوان نعمان کون تھا؟ اسکا کریمنل ریکارڈ کیا تھا؟نعمان خود آزاد کیوں تھا؟ اور اب قتل کر کے بھی وہ آزاد کیوں تھا؟اور اگر وہ مجرم نہیں تھا تو اس کو پہلے کس بنیاد پر سزا دی گئی ؟ اور اب کس بنیاد پر رہائی دی گئی ؟اور قتل نعمان نے نہیں کیا تو پھر قاتل کون تھا؟وہ آزاد زندگی کیوں گزار رہا ہے؟ اور  یہ قاتل عورت اگر منشیات فروش تھی تو آزاد عام شہری کی زندگی بسر کیوں کر رہی تھی؟ اسکا کریمنل ریکارڈ ہونے کے باوجود وہ آزاد کیوں تھی؟قانون کی پکڑ میں کیوں نہ تھی؟ قانون کسی بھی طرح سے جرم کو روکنے اور وقت رہتے صحیح مجرم کو پکڑنے اور سزا دینے میں ہمیشہ ناکام کیوں نظر آتا ہے؟
اور اگر سب مجرموں کو آسانی سے آزاد کیا حاتا ہے تو اتنا بھی بتا دیا جائے کہ یہ قاتل خاتون اب سر عام قتل کرنے کے بعد کب تک دوبارہ آزاد ہو جائے گی؟

صلاح الدین اے۔ٹی۔ایم مشین کو منہ چڑھاتا ہے۔لمحوں میں اسکی ویڈیو ہر طرف پھیل جاتی ہے۔مگر اسکو گرفتار کر کے قتل کرنے کے بعد ہی ثابت کیوں کیا  جاتا ہے کہ یہ مجرم تھا اور کئی  بار اے۔ٹی۔ایم سے پیسے چوری کر چکا ہے ۔وقت رہتے گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟گرفتار کیا گیا تو آزاد کیوں تھا کہ بار بار جرم کرے اور بالآخر خودکار عدالتیں لگانے والے ٹارچر سیل کے مالکان اہلکاروں نے عدالتوں پر بھروسہ کیوں نہ کیا؟ اور خود فیصلہ سناتے ہوئے قتل کیوں کیا؟

آسیہ بی بی کو2009 میں توہین رسالت کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔2010 میں گواہان کے بیانات قلمنبد کروانے پر سزائے موت دی جاتی ہے۔پھر 2018 میں اس کو بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔وہ مجرم تھی تو کیس کو اتنا طویل کر کے گواہوں کی اہمیت ختم کر دی گی؟۔اور اگر وہ بے گناہ تھی قانون کے رکھوالوں نے سزائے موت دے کر اور آسیہ بی بی کو اتنا عرصہ قید میں رکھ کر اسکی زندگی کے سنہرے سال کیوں برباد کر دیئے؟ قانون کہاں ہے؟قانون کیا ہے؟محافظ کہاں ہیں؟ریاست کہاں ہے؟

اب قانون صرف اتنا موجود ہے کہ دو بھائیوں کو 2018 میں بے گناہ قرار دیا جاتا ہے اور یہی بھائی 2014 میں پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔محافظ ایک سوکھی روٹی چوری کرنے والے کو جیل میں ڈال دیتے ہیں عدالتیں فیصلے کرنے میں ناکام ہیں۔ریاست بے خبر ہے اور ایسے میں بڑے بڑے مگر مچھوں کے لئے اکثر ریاست ,حکومت,پولیس اور عدالتیں براہ راست سہولت کار بنی نظر آتی ہیں۔۔
ایک جرم ہونے کے بعد جہاں ریاست میں آسانی سے کسی کو بھی چھوڑ دیا جائے وہاں قانون کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔کچھ روز قبل سانحہ آرمی۔پبلک سکول کے سہولت کار کی ضمانت کی خبر سنی۔شاہزیب قتل کیس کے مجرم کو باعزت بری کرنے کی کئی  بار کوشش کی گئی  اور کئی  بار قانون کے ساتھ کھیلا گیا۔
اور پھر عدالتیں اگر کسی مجرم کو باعزت بری کرتی ہیں اور وہ عام شہری کی طرح آزاد جی رہا ہوتا ہے تو عدالتوں اور قانون کی کارکردگی کیا ہے؟اور پھر پولیس کس طرح سڑکوں پر انکو ڈکیٹ قرار دے کر گولی مار سکتی ہے؟

کیا پولیس کے محکمے کے نزدیک عدالتوں کےفیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں یا پولیس جج حضرات کے کیے گئے فیصلوں کے برعکس جب جس کو مرضی چاہے گولی مار دے خواہ اسکا مجرمانہ ریکارڈ ہو یا نہ ہو؟
عجیب لاقانونیت ملک میں نظر آتی ہے۔کوئی مجرم ہو عدالتوں میں پیش ہو چکا ہو مگر کسی بھی طرح آزاد ہو جائے تو عدالتوں,پولیس اور حکمرانوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔کسی معصوم شہری کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہو اور بعد از قتل مجرم قرار دیا جائے تو یہ بھی ریاست, پولیس اور عدالتوں پر سوالیہ نشان ہے۔ایوانوں میں بیٹھے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ وصول کرنے والے آئین اور قانون کے علمبردار کہلوانے والے حکمران اور سیاست دان ہر صورت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں آپ چلتے پھرتے کسی بھی وقت بہت آرام سے دہشت گرد اور ڈکیٹ قرار دے کر مار دیئے جا سکتے ہیں۔اور یہاں بہت آرام سے دہشت گردوں کےسہولت کار ,چور,ڈاکو,قاتل,منشیات فروش اور ریپ کرنے والے افراد کسی بھی طرح کسی بھی وقت آزاد ہو سکتے ہیں۔
حکمرانوں,پولیس اور عدالتوں سے گزارش ہے کہ آپ جس طرح مرضی چاہے قانون کو اپنے ہاتھ کا کھلونا بنائیں۔جسکو مرضی آزاد کر دیں۔جسکو مرضی سہولت دے کر اسکا ساتھ دے دیں۔
مگر خدا کے لئے
ہمیں ڈکیٹ قرار نہ دیں
کہ ہماری مائیں تڑپتی ہیں
خدا کے لئے ہمیں جینے دیں کہ
ہماری مائیں ہمیں دیکھ کر جیتی ہیں
خدا کے ہمیں سڑکوں پر لہو لہان نہ کرو
کہ ہماری ماؤں نے ہمیں بہت نازو سے پالا ہے
خدارا ہمیں گولی نہ ماریں
کیونکہ ہماری مائیں روتی ہیں
ہماری مائیں بہت روتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply