ذرا دھوم سے شعر بولو دسمبر کی آمد آمدہے۔۔ضیغم قدیر

یکم دسمبر ہے۔ ناکام عاشقوں کی سستی اور تیسرے درجے کی شاعری سننے والےمہینے کا آغاز۔ اس سے پہلےسوشل میڈیا کے مشہور و معروف شعرا کرام بہت اعلی درجے کی شاعری کر کے ہمارے ذوق کو جلا بخش رہے تھے مگر کچھ نا ہنجاروں کو سکون نہیں ملا سو اب ہمیں جون ایلیاء پہ بھی نتھی ہوئے نامعلوم شعر پڑھنا پڑیں گے۔ خود جون ایلیاء بھی ان اشعار کو پڑھ کر کہتے ہونگے جانی ! مانا کہ ہمارا تمہارا مذاق ہے مگر یہ نامعلوم تھرڈ کلاس اشعار مجھ پہ نتھی کرنے والا مذاق کب سے؟(ہاتھوں سے سوالیہ نشان بناتے ہوئے) تو جناب دسمبر کی رات کا پہلا دکھی شعر کچھ ایسا ملا ہے۔
دیکھ لو!محبت بُری ہے، بُری ہے محبت
پھر بھی تمہیں ایزی لوڈ کروائے جا رہا ہوں

دسمبر میں سردی آہستہ آہستہ اپنی موجودگی کا احساس دِلانا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اسی ٹھنڈ کے احساس کو دور کرنے کے لئے کچھ لوگ گرم انڈے اور ڈرائی فروٹ کھاتے ہیں جبکہ وہیں باقی مانندہ لوگ دکھی شاعری کرتے ہیں۔ گو یہ دکھی شاعری کرکے بقول دسمبری شاعر ان کو۔۔

اسکے ابا سے بھی بے عزتی کروا لی صنم
نا ہی ایزی لوڈ واپس ملا نا ہی وصالِ صنم

ان شعرا کرام کی شاعری کا سٹاک جون ایلیاء سے شروع ہو کر جون ایلیاء پہ ہی ختم ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جن لوگوں کو عشق ہوتا ہے انکے بال جھڑ جاتے ہیں اور جن کی شادی ہو جاتی ہے انکی صحت کمزور ہوجاتی ہے۔ سُنا ہے جون کے بال بڑے تھے اور صحت کمزور۔ الحفظ الامان۔زندگی بہت مختصر اور سادہ سی ہے۔ اس میں انسان کو عشق کر کےاپنا وقت نہیں برباد کرنا چاہیے۔ بلکہ کوئی صحت افزاء سرگرمی اختیار کرلینی چاہیے۔ جیسا کہ شادی۔۔۔۔شادی کے نتیجے میں انسان کی زندگی میں ترتیب آجاتی ہے۔ جیسا کہ بازار جانا ہے تو دہی لانا ہے، آفس جانا ہے تو ڈائپر لانے ہیں۔ بیگم نے مسکرانا ہے تو والٹ خالی کرانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ خیر آپ کن سوچوں میں الجھ گئے، چلیں آپ کو کچھ اچھے سے دکھی اشعار جو کہ عشق کا درجہ اول سے لیکر درجہ پنجم تک احاطہ کرتے ہیں سنا کر ہم بھی دسمبر کو خوش آمدید کہتے ہوئے نکل لیتے ہیں؛

میرا اک مشورہ ہے التجا نہیں
تو اس وقت میرے پاس سے جا نہیں
(عشق کا پہلا لیول: محبوب کی چاہ)

کیوں شِکن ڈالتے ہو ماتھے پہ
بھول کر آگئے ہیں جاتے ہیں
(دوسرا لیول: محبوب کی پرواہ)

مدت ہوئی کہ آپ نے دیکھا نہیں ہمیں
مدت کے بعد آپ سے دیکھانا جائے گا
(تیسرا لیول: محبوب لاپراوہ)

ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پہ
کہ اب اجنبی بن کر اسے پہنچانا ہو گا
(چوتھا لیول: محبوب ہاتھ سے گیا)

اور آخری شعر

بات تو دل شکن ہے پر، یارو!
عقل سچی تھی عشق جھوٹا تھا
(پانچواں لیول: عاشق صاحب اوقات پہ آ!)

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یوں عشق کے پانچوں درجوں سے ہو کر دسمبر شاعری کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہم ان تمام محبوباؤں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو ہر سال مارکیٹ میں ناکام عاشقوں کا نئے سے نیا سٹاک لانے کی ذمہ داری سرانجام دیتی ہیں۔ ورنہ اگر یہ ناہوتی تو آج دکھی شاعری بھی نا ہوتی اور جون ایلیاء کو مسڈ کال کی طرح جاتے یہ جعلی فیس بکی اشعار بھی جو کہ اس سیارے کے امن کے لئے ناگزیر ہونا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply