ڈبے کی کہانی دوست کی زبانی

اسٹیشن کو بڑے خوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا، ہر طرف صفای کروائی گئی تھی۔ پلیٹ فارم پر چونے کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے لائنیں لگاءی گئی تھیں ۔باہر جہاں پر تانگے ،رکشے کھڑے ہوا کرتے تھے، اسے آج پارکنگ کا دلکش نام دیا گیا تھا اور چونے سے لائنیں لگا کر رکشوں کو اہتمام سے کھڑا کرنے کا انتظام موجود تھا۔ریلوے اسٹیشن کی عمارت کسی پاکباز نن کے لباس کی طرح تازہ تازہ کی گئی سفیدی میں چمک دمک رہی تھی ۔ ریلوے کا پورے کا پورا سٹاف ہاتھوں میں جھنڈیاں تھامے پلیٹ فارم پر موجود تھا۔ گذشتہ پچاس برسوں میں اس شہر کے باسیوں نے اسٹیشن کو اتنا سجا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ آج سٹیشن کی دونوں لیٹرینوں سے بدبو کے بھبھکے نہیں اٹھ رہے تھے بلکہ ان کی جگہ فینایل کی خوشبو کے جھونکوں نے لے لی تھی ۔ گو کہ فینایل کی خوشبو اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کی لہروں کو خوشبو کے جھونکے کہا جا سکے لیکن جو مسافر اس سٹیشن پر روزانہ آتے تھے اور انہیں رفع حاجت کے لیے ان لیٹرینوں کی مت مار بدبو کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو ان کے لیے یہ خوشبو کے جھونکے ہی تھے ۔ آج کینٹین والے نے اپنی کینٹین کو اچھی طرح صاف کیا تھا اور تمام کے تمام لال بیگ مار بھگائے تھے۔ چائے کےکپوں پر جمی دو سال پرانی میل تو اترنے سے رہی، اس لیے اسے کپوں کا ایک نیا سیٹ خریدنا پڑ گیا تھا۔ آج سٹیشن پر موجود واحد نلکے سے اس کی ہتھی آن ملی تھی۔ اس ہتھی کے فراق میں تو نلکے کا سارا پانی ہی سوکھ گیا تھا۔ لہذا ہتھی لگانے سے پہلے نلکے کو اس قابل کیا گیا کہ ہتھی ہلانے پر اس میں سے پانی نکل سکے ۔ پلیٹ فارم کے کے عین مقابل خود رو جھاڑیوں کو صاف کر دیا گیا تھا۔ ریلوے لائن کے کراسنگ پل پر سے چرسیوں کو بھگا دیا گیا تھا۔ ٹکٹ فروخت کرنے والا آج ہر مسافر سے بڑی تمیز سے بات کر رہا تھا جو ہر مسافر کے لیے حیرانی کا باعث تھی ۔

میں بھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسٹیشن کی اس کایا پلٹ کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ شاید حکومت کے پاس کوئی قارون کا خزانہ آ گیا ہے۔ میں کہ ٹھہرا ادیب جو تھوڑی سے تبدیلی کو بھی انقلاب سے جوڑنے کا مریض ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اب انقلاب قریب آ گیا ہے ، حکومت کے پاس پیسا آ گیا ہے اب اس ملک کے گریجیویٹ کو خود کشی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اب اس ملک کے ہنر مندوں کو فاقے نہیں کرنا پڑیں گے ۔ اور اب نادار فاقہ کش مزدور اپنے دونوں گردوں سے خون کی صفائی کے عمل سے فیض یاب ہوں گے ۔ اب ہر طرف خوشحالی ہو گی کیونکہ حکومت کے پاس پیسا آ گیا ہے ، مجھے پتا ہےکہ جس حکومت کے پاس پیسا ہوتا ہے اس کے عوام کی پوری دنیا میں عزت ہوتی ہے ۔ لہذا اب ہم عالمی طور پر باعزت ہو جائیں گے ۔ کیونکہ حکومت کے پاس پیسا آ گیا ہے۔

انہیں سوچوں میں، غلطاں میں بیٹھا تھا کہ ادھر سے ٹرین کا ہارن بجا اور میں عالم تخیل سے عالم عمل میں آ گیا۔ ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم پر آ کر رکی۔ ٹرین کے پرانے ڈبوں کے ساتھ ایک لش پش ،پرانے ڈبوں سے مختلف رنگ والا ڈبہ دیکھ کر مجھے یقین ہو چلا کہ واقعی حکومت کے پاس پیسا آ چکا ہے اور یہ ایک ڈبہ نمونے کے طور پر لگایا گیا ہے اور یہ ڈبہ اور یہ اسٹیشن پاکستان کے اجلے مستقبل کی نوید ہیں ۔

مسافر اپنا سامان اٹھا کر گاڑی کی طرف کھڑے ہونے کی جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے لپکے کیونکہ سیٹوں پر تو پہلے ہی "مقدار" سے زیادہ لوگ سوار تھے اب آپ پوچھیں گے کہ لوگوں کی تعداد ہوتی ہے تو میں نے مقدار کیوں لکھا تو میاں میں آپ کو اردو کا ایک کلیہ بتاوں مستقبل میں کام آئے گا۔ کلیہ یہ ہے کہ زندہ چیزوں کے لیے تعداد اور بے جان چیزوں کے لیے مقدار لکھا جاتا ہے ۔کچھ مسافر اس نئے ڈبے کی طرف بڑھے تو سنتری جی نے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ سپیشل ڈبہ ہے جس میں بڑَے صاحب موجود ہیں ۔پھر ڈبے کو ٹرین سے علیحدہ کر لیا گیا ٹریں چلی گئی اور ڈبہ وہیں رہ گیا۔

اتنی دیر میں میں نے دیکھا کہ ریلوے کا تمام کا تمام سٹاف سٹیشن ماسڑ کی قیادت میں اس ڈبے کے باہر جمع ہے سٹاف نے دو قطاریں بنا رکھی ہیں اور سٹیشن ماسٹر ہاتھوں میں پھولوں کا ہار لیے دروازے کے سامنے موجود ہے ۔ دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی باہر نکلا اسٹیشن ماسٹر نے لپک کر اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال دیے اور سٹاف نے اس پر پھول برسانا شروع کر دیے۔ کسی ملازم سے پوچھنے پر پتا چلا کہ موصوف ریلوے کے ایک بڑےمینیجر ہیں اور اسی شادی میں شرکت کے لیے آئے ہیں جس میں شرکت کرنے کے لیے میں بھی دو روز قبل لاہور سے پہنچا تھا۔

اسٹیشن ماسٹر کے دفتر میں دومنٹ کے قیام کے بعد مینیجر صاحب واپس اپنے ڈبے کی طرف چل دیے اتنی دیر میں ہمارا وہ دوست بھی آ گیا جس کے بیٹے کی شادی تھی اور میرا ہاتھ پکڑ کا ڈبے کی طرف بڑھ گیا۔ ڈبے میں قدم رکھتے ہی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ اف میرے خدا کتنا مزین تھا وہ ڈبہ! فلی کارپٹڈ، سپلیٹ اے سی، چھوٹا سا لاؤنج، صوفے، بڑی سکرین کا ٹی وی، کچن، خانساماں، بیڈ روم، وارڈروب ۔۔۔۔

مجھ سمیت سب مہمانوں کی تواضع چائے بسکٹ سے کی گئی۔ شام تک ڈبے ہی میں بیٹھنے کو ترجیح دی گئی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ پورے پاکستان میں اگر کسی جگہ پر بجلی تواتر سے چل رہی ہے تو وہ وزیر اعظم ہاوس ہے یا یہ ڈبہ۔ اسی دوران موصوف نے ہر فون کرنے والے کو بتایا کہ وہ سرکاری ٹور پر ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام کو میرے دوست نےاپنے معزز افسر دوست سے گھر چلنے کو کہا تو اسے نے کہا کہ ، " نہیں جناب رات ڈبے میں ہی گذاریں گے کیونکہ شہر میں تو بجلی نہ ہو گی "۔ اس رشک محل ڈبے میں قیام کےموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ پہلے اس روٹ پر چھ گاڑیاں چلتی تھیں اور ہر ایک میں رش ہوتا تھا اب ایک چلتی ہے اور یہی حال پورے ملک میں ہے۔ ریلوے کی اس بدحالی کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں ۔
“سب سے پہلے کرپشن، وسائل کی لوٹ مار، سیاستدانوں کی بے جا دخل اندازی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ دیکھیں جی، ہم تو ایمانداری سے لگے ہوئے ہیں۔ باقی کو بھی اللہ ہدایت سے نوازے۔” افسر صاحب نے جواب دیا۔
ڈبے سے نیچے اتر کر سٹیشن سے باہر کو جاتے ہوئے سٹیشن ماسٹر سرگوشی میں اپنے کسی اسسٹنٹ سے کہہ رہا تھا، یار اگر سر آج رات بھی یہاں رکے تو ڈیزل کا کل خرچ بچیس ہزار سے بھی اوپر چلا جائے گا۔

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply