تلور کی شامت کیوں کر آتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبیر رخشانی

بلوچی میں کہاوت ہے کہ لومڑی کی شامت جب آتی ہے تو وہ مسجد کا رخ کرتی ہے۔ اب ایک کہاوت تلور پہ بھی فٹ آتی ہے کہ جب بھی اس کی شامت آتی ہے تو وہ پاکستان کا رخ کرتا ہے۔ تلور کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ اس کا شکار اس قدر جائز کیوں قرار دیا جا چکا ہے۔ ورنہ پناہ گاہیں بہت ہیں اس دنیا میں، لیکن نہ جانے اسے سوجھتا کیا ہے کہ جان ہتھیلی پہ رکھ کر وہ پاکستان ہی کا رخ کرے۔ تلور بھی مانندِ پاکستانی عوام کے ہمیشہ امیدوں کے سہارے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ وہ ہر سال کو نئے زاویے سے دیکھنے کا عادی ہے کہ نیا سال اس کی زندگی میں بہتری ہی لائے گا حکومتِ پاکستان ان کی حفاظت کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گی  یہی سوچ کر وہ پاکستان کا رخ کرتا ہے۔ وہ گزشتہ سال کے بچھڑے ساتھیوں کا غم بھلا کر زندگی اور پناہ گاہ کی تلاش میں پاکستان ہی کا رخ کرتا ہے۔

آئیے تلور جی۔۔ نئے پاکستان میں آپ ہی کا انتظار تھا۔۔ بتا رہا ہوں حالات آپ لوگوں کے لیے پہلے جیسے ہیں۔ پھر گلہ نہ کرنا کہ بتایا نہیں۔ یہ بندوق بردار تو وہ بندوق بردار۔۔ نشانہ سنبھالے اس طاق میں بیٹھے ہیں کہ آپ لوگوں کی پرواز جیسے ہی لینڈکر جائے تو آپ میں سے چند کی جان لے کر یہاں جشن منایا جائے۔ جشن منانے میں ملکی اور غیرملکی دونوں شامل ہوتے ہیں۔ آپ جتنی بار چیخیں، چلائیں، گڑگڑائیں، اپنی دکھ بھری داستان سنائیں۔ کئی ہزار کلومیٹر کی مسافت کا احوال بتائیں۔ نہ مہمانوں کو ترس آئے گا اور نہ میزبانوں کو۔ مہمانوں کے پاس اپنا شوق پورا کرنے کے لیے وہ سرٹیفکیٹ موجود ہے جو میزبانوں کے پاس نہیں ۔

بھئی اپنوں سے جان بچاؤ گے تو کہاں جاؤ گے تلور میاں۔ تمہیں نہیں معلوم قطری شہزادے آپ لوگوں کے ساتھ کیا کچھ کرنے والے ہیں۔ میرے خیال میں ہر بار کہانی دہرا کر ہی تمہیں سمجھانا پڑے گا۔ ارے بھئی قطری شہزادوں کو آپ کی  آمد کی اطلاع مل ہی گئی ہے۔ بھئی آنا ہی تھا تو چپکے سے ہی آجاتے۔ کسی کو اطلاع تو نہیں دیتے وہیں سے پَر پھیلائے سائیں سائیں کرتے کرتے تم پہنچ ہی جاتے ہو۔ اب تمہیں اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ دو قطری شہزادوں کو ایک ایک لاکھ ڈالر کے عوض آپ میں سے دو سو کی جانیں لینے کا اجازت نامہ مل چکا ہے۔ قطری شہزادوں نے آپ لوگوں تک رسائی کے لیے سود سمیت رقم بطورِ نکاح سرکاری خزانے میں پہلے سے ہی جمع کر دی  ہیں۔ اب انہیں روکنے والا کون۔۔ شاید آپ لوگ یہ سوچ کر بلوچستان کا رخ کر تے ہیں کہ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں وہ آپ لوگوں کی مہمان نوازی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے اگر بات جان پہ آجائے تو وہ آپ لوگوں کو پناہ دیں گے۔۔ ارے تلور میاں کس صدی میں جی رہے ہیں۔ روایات تبدیل ہوگئی  ہیں ۔ ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ مہمان نوازی کے لیے بلوچستان کافی مشہور ہے مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ پناہ کی ضرورت پڑتی تو لوگ جان ہتھیلی پہ رکھ کر انہیں پناہ دیتے تھے۔ اب بتا دوں حالات بالکل بدل چکے ہیں جناب۔ لوگ حالات کے مارے اتنے غیرمحفوظ ہوگئے کہ اپنے پیاروں کو نہ بچا سکے۔ اور نہ ہی اب مہمان نوازی کی سکت رکھتے ہیں۔اب بھی اگر آپ کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی امان میں رکھنے والا کوئی انسان اس سرزمین پہ موجود ضرور ملے گا تو میرے خیال میں یہ آپ لوگوں کی خام خیالی ہے۔

اگر آپ یہی خیال کرتے ہوں گے کہ کنونشن آن مائیگیٹری سپیشیز کا قانون جس پہ حکومتِ پاکستان دستخط کر چکی  ہے۔ یہ قانون آپ لوگوں کے تحفظ کے لیے کافی ہوگا۔ اگر اس قانون پہ عملدرآمد نہیں کیا گیا تو آپ لوگ انصاف کے لیے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے میرے خیال میں یہ سوچ کر آپ لوگ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔برخودار یہاں انسانی جانیں محفوظ نہیں۔ صبح کا بھولا ہوا شام کو صحیح سلامت گھر لوٹ آئے اسے بھولا نہیں کہتے۔ تو بھلا آپ لوگوں کے تحفظ کی  ذمہ داری کون اپنے سر پہ لے جن کے سر کی قیمت باقاعدہ پہلے سے مقرر کی جا چکی ہو۔ اور مجھے بتاؤ اقوامِ متحدہ نے اب تک انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے میں کونسا کردار ادا کیا ہے جہاں آپ لوگوں کی داد رسی ہو سکے۔ نا بابا نا۔۔ تحفظ والا کام یہاں کے پسے ہوئے لوگوں سے نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اس کی گارنٹی دینے والا۔۔۔ پھر بھلا آپ لوگوں کی آواز کون سنے۔ پھر آپ لوگوں کا کوئی ترجمان موجود ہی نہیں، جو دنیا کو بتا سکے کہ اب تک آپ لوگوں پہ کتنا ظلم ڈھایا جا چکا ہے۔ تمہارے قبیلے کے کتنے افراد قتل کیے جا چکے ہیں قاتلوں کا کوئی سراغ ملا کہ نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ لوگوں نے معاش ، آب و ہوا کی تبدیلی اور خوراک کی تلاش میں جس خطے کا رخ کیا ہے میں یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ آپ میں سے دو سو سے زائد کی اموات اسی سرزمین پہ ضرور واقع ہوگی۔ آپ سوال کریں گے تو جواب یہی ملے گا کہ کس نے کہا کہ بھئی اپنی سرزمین چھوڑ کر دوسری  سرزمین پہ قدم رکھنے کی۔ بہتر ہوتا منگولیا اور سائبیریا  کے جمے  پانی میں جان ہی کیوں نہ دیتے کم از کم مارنے کا ملال تو نہ ہوتا۔ کتنی بیوقوفی ہے نا سرحدیں پار کرتے ہو۔ مسافتیں طے کرتے ہو۔ سرِ عام گھومتے ہو۔۔ پھر شکایتیں بھی لگاتے ہو۔۔ اس مرتبہ آئے ہو۔۔ خبردار جو آئندہ یہاں قدم رکھا۔۔ تلور میاں بتا رہا ہوں۔۔آپ لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک ہی گیا ہوں۔ باقی آپ لوگ جانو آپ لوگوں کا کام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply