ایرانی فلم انڈسٹری، ایک تعارف۔۔ذوالفقار علی زلفی

ایران میں فلم سازی کا آغاز 30 کی دہائی سے شروع ہوا ـ پہلی متکلم فارسی فلم 1933 کو “دخترِ لُر” کے نام سے بمبئی میں بنائی گئی جس کے ہدایت کار ہمارے خطے کے عظیم فلمی ذہن جناب اردشیر ایرانی تھے ـ ایران میں اس فلم کی محدود نمائش ہوئی ـ اس زمانے میں (قاجار شہنشاہیت کا دور) کسی ایرانی خاتون کا فلم دور ریڈیو میں کام کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا ـ قاجار شہنشاہیت کے دور میں محدود پیمانے پر فلمیں بنتی رہیں جن کے موضوعات زیادہ تر لوک فارسی داستانوں پر مشتمل تھے ـ

پہلوی شہنشاہیت کے دوسرے دور میں یعنی پچاس کی دہائی میں ایرانی فلم سازی نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور فلم سازی باقاعدہ ایک صنعت کی صورت شکل پزیر ہوئی ـ اس لمبی چھلانگ کے پیچھے شہنشاہِ ایران محمد رضا پہلوی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے فلم سازی کے شعبے پر بھرپور توجہ دی ـ اس زمانے کے ہدایت کاروں نے بھارتی، امریکی اور فرنچ سینما کی فلموں سے مرکزی خیال مستعار لے کر ایران میں فلمی صنعت کو بے تحاشا ترقی دی ـ

ان فلموں میں سیکس اور عریانی کو نمایاں رکھا گیا بالخصوص خواتین کی برہنہ چھاتیوں کی عکاسی ہر فلم کا لازمی حصہ تھا ـ کلبوں میں رقص و سرود ، گول ٹوپی پہنے ہیرو ، پرتشدد مناظر ، شراب کا کھلے عام استعمال اور عامیانہ زبان ان فلموں کی اہم ترین خاصیت تھی ـ فلموں میں عموماً شہری اپر مڈل اور ایلیٹ کلاس کی غیرحقیقی زندگی کو بیان کیا جاتا تھا ـ فلموں میں پیش کی جانے والی زندگی اور کہانیوں کا ایرانی سماج، ثقافت اور عمومی مزاج سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا ـ

یہ سلسلہ 50 کی دہائی سے 70 کی دہائی تک جاری رہا ـ ان فلموں کے موضوعات بھی دلچسپ تھے ـ جیسے؛ خزانے کی تلاش (فلم: گنجِ قارون) ، کسی دیہاتی کی بیوی کو اغوا کرکے شہر کے چکلے میں بیچنا (فلم: بلوچ) ، طوائفوں کی پرتعیش زندگی و ان سے محبت (فلم: روسپی) وغیرہ وغیرہ ـ اس حوالے سے فحش ترین فلم یقیناً “مرغِ ہمسایہ” ہے ـ بعض فلموں میں شہری مڈل کلاس ہیرو دیہاتی لڑکی کو جھانسا دے کر جنسی تعلق قائم کرکے بھاگ جاتا اور پھر لڑکی اس کی تلاش میں شہر کی خاک چھانتی اور شہری مردوں کو دلبستگی کا سامان مہیا کرتی ـ

شہنشاہیت پر مبنی نظام اس قسم کی فلموں کی مکمل حوصلہ افزائی کرتی تھی ـ یہ فلمیں عوام کو سستی تفریح فراہم کرکے مروجہ استحصالی سیاسی نظام سے ان کی توجہ ہٹانے کا کام کرتی تھیں ـ دیہات اور شہروں کے حاشیوں میں رہنے والے کسانوں اور مزدوروں کی زندگی کا مکمل بلیک آؤٹ کیا جاتا تھا ـ فلموں میں نظر آنے والے امیر طبقات کی زندگی کو ناخوش اور ناآسودہ دکھا کر عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ غربت اور فاقہ کشی کی زندگی بہتر ہے جس میں کم از کم روحانی سکون تو ہے ـ اس فلمی تبلیغ کے باعث طبقاتی کشمکش کو دبانے میں بھی کافی مدد ملی ـ

60 کی دہائی میں مغربی درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبا نے ان فلموں پر بےلاگ تنقید کا آغاز کیا اور انہیں ایرانی سماج کا نمائندہ ماننے سے انکار کردیا ـ دلچسپ بات یہ ہے ان طلبا کو یورپی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کی پالیسی شاہ کی اپنی تھی، شاہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ طلبا یورپی طرزِ معاشرت میں ڈھل کر ایران کو روشن خیال معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ـ یہ پالیسی شہنشاہیت کے گلے پڑ گئی ان طلبا نے یورپ سے واپس آکر جمہوریت، مساوات اور آزادانہ انتخابات کا مطالبہ شروع کردیا ـ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، آمدم برسرِ مطلب ـ

ہوشنگ کاووسی وہ پہلے فلمی تجزیہ کار تھے جنہوں نے ان فلموں کو “فارسی فلم” کا نام دیا ـ ان کے مطابق ان فلموں کی صرف زبان فارسی ہے اس کے علاوہ ان کا ایرانی سماج، طرزِ معاشرت اور عمومی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے ـ ہوشنگ کے بعد دیگر ناقدین نے بھی ان فلموں کو اسی اصطلاح کے ساتھ یاد کرنا شروع کردیا ـ

ان ناقدین نے فرانسیسی سینما کی نئی لہر (French new wave) ، اطالوی سینما کی نوحقیقت پسندی (Italian neorealism) اور کلاسیک ہندی سینما کی مثالوں اور نظریات کے ذریعے فارسی فلموں پر ہر طرف سے حملہ کردیا ـ اس بحث مباحثے کا نتیجہ 1969 کو ایک فلمی انقلاب کی صورت برآمد ہوا ـ

1969 کو ہدایت کار داریوش مھرجو نے “گاو” (The cow) فلم بنا کر سینما کے شعبے میں انقلاب بپا کر دیا ـ اس فلم میں پہلی دفعہ ایرانی دیہات کی عکاسی کی گئی ـ کسانوں کی عسرت و تنگ دستی کو موضوع بنا کر سوال اٹھایا گیا نظامِ شہنشاہی کے دسترخوان پر کسان کا حصہ کہاں ہے؟ ـ “گاو” کو نہ صرف ایران بلکہ عالمی سطح پر بھی زبردست پزیرائی ملی ـ اس فلم کے ساتھ ہی ایرانی سینما ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ـ مسعود کیمیائی، بہرام بیضائی ، عباس کیارستمی و دیگر ہدایت کاروں نے اس سلسلے کو نہ صرف مزید آگے بڑھایا بلکہ معیاری سماجی فلموں کی صورت ایرانی سینما کو عالمی سطح پر ایک پُراثر سینما کا مقام دلوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

ناقدین نے ایرانی سینما کی اس تبدیلی کو خوش آمدید کہا اور سماج و اس کے مختلف مسائل پر مبنی فلموں کو “ایرانی فلم” کا نام دیا ـ شہنشاہیت نے ان فلموں کا راستہ روکنے کی حتی المقدور کوشش کی مگر ناکام رہی ـ بالآخر یہ فلمی انقلاب پھلوی شہنشاہیت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوگئی ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply