• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پی پی پی کے تاسیسی اجلاس کے میزبان ڈاکٹر مبشر حسن سے پارٹی کے قیام اور ابتدائی ایام کے حوالے سے دو سال قبل کی گئی گفتگو ، انٹرویو ۔۔زوار حسین کامریڈ

پی پی پی کے تاسیسی اجلاس کے میزبان ڈاکٹر مبشر حسن سے پارٹی کے قیام اور ابتدائی ایام کے حوالے سے دو سال قبل کی گئی گفتگو ، انٹرویو ۔۔زوار حسین کامریڈ

سیاست میں کچھ نام ایسے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جڑے ہیں۔ یہ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ تاریخ کے تھپیڑے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ ڈاکٹر مبشر حسن بھی ان میں سے ایک نام ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے قیام کی تاریخ میں شہید بھٹو کے بعد شاید سب سے اہم کردار ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گلبرگ لاہور میں واقع گھر میں 50 سال قبل نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی (سمجھی جانے والی) انقلابی جماعت کا تاسیسی اجلاس ہوا تھا۔ اس تاریخی عمارت کے باغ باغیچے، لان اور در و دیوار، ارد گرد تعمیر ہونے والے کثیر المنزلہ پلازوں کے درمیان سنجیدگی وعوامیت کا مظہر بنے، بلند تر تاریخی قامت کے ساتھ بنا کسی تبدیلی کے آج بھی موجود ہیں۔گھر کے جس کمرے میں شہید بھٹو قیام کیا کرتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب کا بیڈ روم ہے۔

ہم جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے، شہید بھٹو کے لمس کے پر وقار و مسحور کن احساس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بھٹو کے رومانس میں رچی بسی ہماری گفتگو کا پہلا سوال پیپلز پارٹی کے قیام کے اعلان سے قبل کی سرگرمیوں کا تھا جس کی ابتدا ڈاکٹر صاحب نے یوں کی:

1965ء کی جنگ کے بعد ایوب خان تاشقند معاہدہ کر کےانتہائی غیر مقبول ہو گئے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس معاہدے اور انڈیا کے خلاف سٹینڈ لیا تو راتوں رات پاکستان کے عوام کی مقبول ترین شخصیت بن گئے۔میں نے 1966ء میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر لاہور میں ’اتحاد عوام‘ کے نام سے سوشلزم کے حق میں اور امریکا کی مخالفت میں ایک سوشلسٹ گروپ بنایا۔حامد سرفراز، حنیف رامے، لطیف مرزا، کنیز یوسف، غالب احمد اور ان کی اہلیہ اس گروپ میں شامل تھے۔گروپ ممبرز نے چار صفحات پر مبنی ڈاکومنٹ تحریر کیا جو ہمارے سیاسی تناظر کو پیش کرتا تھا۔بھٹو صاحب کی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوے گروپ کے 15 ارکان نے فیصلہ کیا کہ یہ دستاویز بھٹو صاحب کو دے دی جائے۔ میں نے لاڑکانہ جا کر ملاقات کی درخواست کی تو انھوں نے کراچی میں واقع اپنی رہائش گاہ 70 کلفٹن میں مجھے بلا لیا۔میٹنگ میں بھٹو صاحب کے ساتھ جے اے رحیم بھی تھے۔انھوں نے ہمارے گروپ کو پارٹی شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں سوشلسٹ معشیت چاہتے ہیں اور آمریت و امریکی بالا دستی کے خلاف ہیں۔اس پروگرام نے مجھے اپیل کیا۔

میں نے اپنے گروپ کی تیار کردہ دستاویز دکھائی تو بھٹو صاحب نے اسے اپنے پروگرام میں شامل کر لیا اور ہم ان کی مجوزہ پارٹی کا حصہ بن گئے۔لاہور میں جلسے کی تیاری کا آغاز کر دیا گیا۔ آرگنائزنگ کمیٹی نے رپورٹ دی کہ ایوب خان حکومت کے ڈر کی وجہ سے کوئی بھی جگہ دینے کو تیار نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمارے گھر کے لان میں جلسہ ہونا طے پایا۔تاسیسی جلسے کی یادیں شیئر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جلسے کے انتظامی امور میں جیو نیوز کے ممتاز اینکر افتخار احمد بہت متحرک تھے۔سٹیج مینجر حامد سرفراز اور لاہور ڈسٹرکٹ بار کے صدر اسلم حیات انتظامی و استقبالیہ کمیٹی کے چیئر مین تھے۔پیپلز پارٹی کے منشور کا بڑا حصہ ’اتحاد عوام‘ گروپ کے ارکان کا تیار کردہ تھا۔۔۔۔۔نیپ کے خورشید حسن میر بھی اجلاس میں شریک تھے مگر پارٹی میں شمولیت اور تقریر نہ کرنے کا عندیہ دے چکے تھے تاہم جب انہوں نے جوشیلی تقریریں سنیں تو تقریر بھی کی اور پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کر دیا۔شیخ رشید احمد پارٹی میں شمولیت کے لیے آمادہ نہیں تھے، وہ وڈیروں سے زمینیں چھین کر ہاریوں کو دینا چاہتے تھے۔ دوسری جانب بھٹو صاحب خود کو کیپٹل ازم کے سخت ترین مخالف کے طور پر پیش کررہے تھے لیکن مصطفیٰ کھر جیسے جاگیر داروں کی پارٹی میں شمولیت بھی چاہتے تھے۔بھٹو کا موقف تھا کہ پارٹی جاگیر داروں و سرمایہ داروں سے دو محاذوں پر لڑائی کی بجائے ایک فرنٹ پر کیپٹل ازم کے خلاف لڑے۔بھٹو صاحب دو دن کی تگ و دو کے بعد شیخ رشید کو منانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بھٹو کی خاص قابلیت تھی۔ وہ طویل بحث کے بعد مخالف کو کنوینس کرلیا کرتے تھے۔

تاسیسی اجلاس میں شریک خواتین کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس وقت کے ڈی آئی جی پولیس عباد احمد خان کی اہلیہ بیگم عباد، کنیز یوسف اور میری بہن آئمہ حسن تاسیسی جلسے میں شریک تھیں۔اجلاس دو دن جاری رہا، 30 نومبر کی شب قراردادیں و بنیادی دستاویزات پاس ہوئیں اور یکم دسمبر کو پارٹی کے قیام، پروگرام اور عہدے داروں کا اعلان کر دیا گیا۔

پارٹی کی بنیادی دستاویزات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بتا یا کہ پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں نو پپرز تھے جو جے اے رحیم نے تحریر کیے تھے۔جے اے رحیم لیفٹ کے اصل لیڈر تھے، وہ اور بھٹو صاحب پارٹی کا دماغ تھے۔ دونوں انٹر نیشنل سیاست کو سمجھتے تھے اوران کی نظر ساری دنیا پر تھی۔حنیف رامے پاکستان کی داخلی سیاست پر عبور رکھتے تھے۔پیپلز پارٹی میں شامل لیفٹ کے لوگوں میں روس اور چین نواز دونوں تھے تاہم پارٹی کا ساتھ چین نواز گروپ نے دیا تھا۔ ان میں سی آر اسلم کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے پارٹی میں شامل نہ ہونے کے باوجود اپنی جماعت کے پکے کمیونسٹوں محمود بٹ و ضیا  ء الدین بٹ کو پارٹی میں شمولیت کی ہدایت کر دی تھی۔

ستانوے سالہ سینئر سیاسی رہنما و دانشور ڈاکٹر مبشر حسن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے چئیر مین کی حیثیت سے اپنی جدوجہد کے ایام کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں پارٹی کی یونٹ سازی سٹڈی سرکل کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔لاہور میں پہلا دفتر گڑھی شاہو میں کراؤن سنیما کے قریب بنایا گیا تھا جس کے انچارج نذر علی شاہ تھے۔ عوام بڑی تعداد میں ہمارے پاس آتے اور کارکن پارٹی تنظیم سازی میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔لاہور میں پارٹی کے 450 یونٹ قائم ہوئے تھے۔ ہر یونٹ سے پانچ روپے ماہانہ پارٹی فنڈ لیا جاتا تھا۔پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام کو اینٹی اسلام سمجھا جاتا تھا۔ مُلا ہمارے مخالف تھے، گو ہمارے کارکن سوشلزم کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ثابت کرتے تھے پھر بھی مشکلات موجود رہتیں۔ مگر بھٹو صاحب کی انڈیا ، امریکہ  اور سرمایہ داری نظام کے خلاف تقریروں سے عوام قائل ہو جاتے تھے۔پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں بھٹو صاحب کی شخصیت کا کلیدی کردار تھا۔

پی پی کا سیاسی عمل ماضی جیسا کیوں نہیں رہا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ بے نظیر نے سوشلزم کا نعرہ ترک کر کے اور امریکا کی مخالفت بند کر کے پارٹی کو ختم کر دیا۔ پیپلز پارٹی اب بھی سوشلزم کی حامی اور امریکہ مخالف راستہ اختیار کرے تو مقبول جماعت بن سکتی ہے۔

آپ نے پارٹی کیوں چھوڑی؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا کیا کسی نے میرا استعفیٰ دیکھا ہے؟ میرا پارٹی چھو ڑنے کا تاثر بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور زرداری کا پراپیگنڈہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر صاحب موجودہ سیاسی عمل سے سخت مایوس نظر آئے۔انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن جیتنے یا پیسہ بنانے کے لیے نام نہاد ترقیاتی کام کراتی ہیں، عوام کا کسی کو خیال نہیں۔ وزیر اعظم سے لے کر پٹواری تک ملک پوری طرح منافقوں کے ہاتھ میں ہے۔ لوگ اب بدل گئے ہیں ، کہیں سے کوئی امید نہیں ہے۔
تصاویر : محمود احمد مودی .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply