پاکستان تحریک انصاف کی غنڈہ گردی

جی ہاں! عنوان سے ٹپکتی وحشت تعصب اور سیاسی منافرت کی غماز ہے۔ قارئین کہیں گے کہ لکھنے والوں کو الفاظ کے چناؤ میں حد درجہ محتاط رہنا چاہیے۔ایک سیاسی جماعت اور غنڈہ گردی ،دریں چہ نسبت است۔لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے ایک نظر دیکھ لیں کہ پاکستان تحریک انصاف غنڈہ گرد کیوں ہے۔
ضلع مانسہرہ میں ایک شخص کی اپنے گھر سے لاش ملتی ہے۔ٹکڑوں میں۔ اس کے جسم کے انتہائی حساس اعضا بھی کاٹے گئے تھے۔ قاتل کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ پڑوسی خاتون سامنے آتی ہے اور دعوی ٰکرتی ہے کہ میں نے اس شخص کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ مجھ پر بری نظر رکھتا تھا۔ خیبر پختون خواکی نیک سیرت پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ جرم ہوا ،مجرم پکڑا گیا، پریس کانفرنس ہوئی اور کیس داخل عدالت۔ کسی نے نہ پوچھا کہ ایک خاتون تنہا کسی تندرست مرد کو کیسے قتل کر سکتی ہے؟ اگر قتل کر بھی دے تو اتنی ہمت کہاں سے لائے گی کہ لاش کے ٹکڑے بھی کر سکے۔ خیر،مقامی پولیس نے تو اپنی جان چھڑا دی لیکن نہ تو حکومت وقت نے پوچھا اور نہ ہی پولیس کے اعلیٰ حکام نے تا آنکہ سول سوسائٹی نے سٹیپ ان کیا اور کیس کے لوپ ہولز سامنے لائے۔اس کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مقتول کے ورثاء کو جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کرنے اور منہ بند رکھنے پر آمادہ کر لیا، کیونکہ جانے والے تو لوٹ کر نہیں آتے اس لیے اپنی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش نہ کی جائے، مبادا پیچھے رہ جانے والوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔چنانچہ قاتل کا تو پتہ نہیں چل سکا البتہ کل پرسوں اس خاتون کی ضمانت بھی منظور ہو گئی جس نے اعتراف جرم کیا تھا۔
شنکیاری میں گھریلو جھگڑے کی وجہ سے شوہر نے بیوی کو اس کے گھر سے اغوا کیا، ویرانے میں لے جا کر اپنے ساتھیوں سمیت اسے تشدد کا نشانہ بنایااور پتھر مار مار کر اس کی جان لے لی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس دوران پولیس کے جوان بھی وہیں موجود تھے لیکن وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں کو روک نہیں پائے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ قاتل فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یوں پولیس آج تک انہیں تلاش کر رہی ہے اور بدنصیب خاتون کے گھر والوں کو جرگے کے ذریعے صلح کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ عنقریب یہ مہم سر ہو جائے گی جس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے۔
بالاکوٹ کے مضافات میں رہنے والے ایک غریب کی بیٹی گھر سے لا پتہ ہو گئی۔ چند دن بے چارہ شرم کے مارے اپنے تئیں اسے تلاش کرتارہالیکن کامیابی نہیں ملی۔ آخر کار پولیس سٹیشن گیا، مقدمہ درج کرنے والوں نے کہا اتنی اتنی رقم لائیں تاکہ ہم گاڑی کا بندوبست کر کے آپ کی بیٹی کو تلاش کرنے جا سکیں۔ اس شخص نے مانسہرہ ہمارے مرشد ممتاز شاہ صاحب سے رابطہ کیا اور کہا کہ میرے ساتھ یہ معاملہ ہو گیا ہے اور میرے پاس مطلوبہ رقم بھی نہیں ہے،خدارا میری مدد کیجیے تاکہ میں اپنی بیٹی کو واپس لا سکوں۔ ممتاز شاہ صاحب اسے لے کر ڈی پی او کے پاس گئے اور کہا: ہم نے طے کیا ہے کہ کل کے اخبارات میں اشتہار شائع کروائیں جس میں اعلان ہو کہ آج کے بعد ڈسٹرکٹ مانسہرہ میں رہنے والے غریبوں کی بیٹیاں جس کی مرضی آئے بے دریغ اغوا کی جا سکتی ہیں کیونکہ مانسہرہ پولیس کے پاس انہیں تلاش کرنے اور مجرموں کو پکڑنے واسطے نہ تو گاڑیاں ہیں اور نہ ہی ان میں ایندھن ڈالنے کے پیسے۔ڈی پی او نے معذرت کی اور کہا میں زیادہ تو کچھ نہیں کر سکتا مگر کل آپ کے ساتھ اپنی گاڑی میں بالاکوٹ تھانہ جاؤں گا اور اس غریب انسان کی بیٹی کو تلاش کروں گا۔
مانسہرہ پولیس نے تین لڑکوں کو گرفتار کیا، رات بھر انہیں پیٹتے رہے اور صبح رہا کر دیا۔ ہمیں خبر ملی تو ایس ایچ او سے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ جواب ملا کہ میں نے ان کی نصیحت کے لیے یہ سب کیا ہے۔ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری پولیس فقط ہماری محافظ ہی نہیں بلکہ ہماری اماں جان بھی ہے جو مجرموں کو گرفتار کر کے انہیں قانون کے حوالے نہیں کرتی بلکہ نصیحت کی خاطر رات بھر تشدد کر تی ہے اور پو پھٹتے ہی انہیں گھر بھیج دیتی ہے ۔ البتہ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وطن عزیز پاکستان میں گرفتاری سے لے کر سزا دینے تک کا سارا عمل اگر ایس ایچ او کی صوابدید پر منحصر ہے تو عدالتیں کیا جھک مارنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
تحریک انصاف کے ایک جیالے کے بقول وہ مانسہرہ لاری اڈہ اپنے دوست کے انتظار میں کھڑا تھا۔ اس کے سامنے سڑک کنارے ایک پک اپ کھڑی تھی اور اس کے پیچھے آلٹو۔ تھوڑی دیر بعد ٹریفک پولیس کا اہلکار آیا اور شور مچانے لگا کہ آلٹو کس کی ہے۔ آلٹو کا مالک آیا، معذرت کی اور اپنی گاڑی لے کر چلتا بنا۔تحریک انصاف کا جیالاکہتا ہے میں نے ٹریفک اہلکار سے پوچھا یہ پک اپ کس کی ہے؟ اس نے کہا میری ہے۔ میں نے کہا آپ ٹریفک پولیس میں ہوتے ہوئے بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں گے تو عوام سے کیا گلہ۔ اس گستاخی کی وجہ سے اہلکار برافروختہ ہو گیا۔ پولیس بلائی اور گستاخ کو اٹھا کر تھانے پہنچا دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایس ایچ او کمرے میں داخل ہوا اور پوچھا مجرم کہاں ہے؟ کانسٹیبل نے اشارہ کیا کہ وہ سامنے کرسی پر بیٹھا ہے۔ ایس ایچ او نے کہا مجرم اور کرسی پر؟ جیالے نے سوچا شاید ایس ایچ او کو اصل بات کا علم نہیں اس لیے درمیان میں بولا سر میں نے کوئی جرم نہیں کیا میں تو۔۔۔ قبل ازیں کہ اس کا جملہ مکمل ہوتا ایس ایچ او نے اسے تھپڑ جڑ دیا ۔۔ چٹاخ۔۔چٹاخ۔۔چٹاخ۔۔ لے جاؤ اسے اور حوالات میں بند کردو۔تحریک انصاف کے اس بدنصیب کارکن کو حوالات کے حوالے کرنے کے بعد ایس ایچ او نے اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹی اور جتنی دفعات یاد تھیں ساری اس پر لگا دیں، بے چارہ آج تک کیس بھگت رہا ہے۔
بالاکوٹ میں چوری کا کیس درج ہوا، ایک شخص گرفتار ہوا جس کا کزن اس سے ملنے پولیس سٹیشن گیا، وہاں اس کی حالت دیکھی تو رہ نہیں پایا،پولیس اہلکاروں سے الجھ گیا کہ یہ بہیمانہ تشدد کیوں؟اس گستاخی کی وجہ سے اسے بھی حوالات میں بند کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق چار دن اسے الٹا لٹکا کر بھوکا اور پیاسا رکھا گیاجس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ چوری کا کیس بھی جھوٹا تھا اور دونوں بیگناہوں کی گرفتاری بھی پیسوں کی خاطر عمل میں لائی گئی تھی۔ البتہ گرفتاری سے لے کر مرنے تک کے پانچ سات روز میں مقتول کے ایک رشتہ دار جو کہ الیکٹریکل انجنیئر بھی ہیں اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بھی، کا کہنا ہے کہ اس بیچ میں نے سٹیزن پورٹل، تحریک انصاف کی سیاسی قیادت اور اپنے سارے تعلقات استعمال کر دیکھے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ مقتول کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بھی ورثاء کو روڈ بلاک کرنا پڑا۔حالانکہ اس کیس کی خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی آ چکی تھیں۔ اس سب کے باوجود آخری لمحے تک ڈی پی او کی کوشش تھی کہ ڈی ایس پی بالاکوٹ کا نام ایف آئی آر میں درج نہ ہو سکے۔
ان واقعات کو پڑھنے کے بعد اتنا تو واضح ہو جاتا ہے کہ مانسہرہ کی پولیس ہماری محافظ نہیں بلکہ ہماری جان، مال، عزت اور آبرو کی بدترین دشمن ہے لیکن میرا شکوہ پولیس سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے ہے۔ میری مجرم پولیس نہیں پاکستان تحریک انصاف ہے۔ جی ہاں وہ تحریک انصاف جسے رومال سے ناک صاف کرنے کا بل بھی اسمبلی میں پیش کرنے کا چسکہ لگ چکا ہے لیکن عام شہری کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کی پروا نہیں ہے۔ کہاں ہیں پولیس اصلاحات؟ کہاں ہے انصاف پر مبنی حکومت کے دعوے؟ کہاں ہے صاف شفاف قیادت؟ کہاں ہیں عام آدمی کی بہترزندگی کے دعوے؟ ایسی حکومت کو غنڈہ گردی نہیں تو اور کیا کہا جائے؟ اگر یہ غنڈہ گردی نہیں ہے تو پھر کس چیز کا نام غنڈہ گردی ہے؟
ہمیں انصاف چاہیے خان صاحب۔ ہمیں کرپشن کے خلاف نعرے نہیں جینے کا حق چاہیے۔ ہمیں یورپ کی مثالیں دینے والے یورپ جیسی ترقی دیں نہ دیں مگر عزت سے جینے کا حق دے دیں پلیز!

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply