مارکسسٹ فلم ساز:ضیا سرحدی

محبوب خان کو ہندی سینما کا عظیم ہدایت کار مانا جاتا ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس عظیم ہدایت کار کی فکری ساخت و پرداخت میں ایک اور شخص کا ہاتھ ہے. یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مارکسزم کے فلسفے کے تحث سماج اور اس کی تہہ میں پلتے طبقاتی تضادات کو سینما کا حصہ بنانے کی شعوری و عملی کوشش کی. انہوں نے محبوب خان کی فکری کایا پلٹ کر انہیں وہاں پہنچادیا جہاں سے دنیا کی سو بہترین فلموں میں سے ایک “مدر انڈیا” کا ظہور ہوا. وہ شخصیت ہیں؛ “ضیا سرحدی”.
ضیا سرحدی 1914 کو پشاور میں پیدا ہوئے. کہا جاتا ہے انہیں بچپن سے ہی فلموں کا شوق تھا جو جواں ہوتے ہوتے عشق کا روپ دھار گیا. جوانی میں وہ مارکسی فلسفے سے بھی آشنا ہوئے. مارکسی فلسفے اور سینما کے شوق کو لے کر وہ 19 سال کی عمر میں پشاور سے بنگال پہنچ گئے. کلکتہ پہنچ کر وہ ایسٹ انڈیا فلم کمپنی کلکتہ میں ملازم ہوگئے. قریب ایک سال تک بنگالی سینما کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں وہ ساگر فلم کمپنی سے وابستہ ہوگئے.
کمپنی میں ان کی ملاقات نوجوان و زیرک ہدایت کار محبوب خان سے ہوگئی. محبوب خان ان کی سوجھ بوجھ اور سیاسی شعور سے کافی متاثر ہوئے , انہوں نے اپنے نوجوان دوست سے ایک ایکشن فلم لکھنے کی درخواست کی جس کا جواب 1936 کی فلم “دکن کوئن” کی صورت ملا. مذکورہ فلم میں ضیا سرحدی نے ایک مختصر کردار بھی نبھایا. اس قسم کی فلمیں چوں کہ ان کے مزاج کے خلاف تھیں، اس لیے انہوں نے طویل بحث و تمحیص کے ذریعے محبوب خان کو سماجی موضوعات پر فلمانے پہ رضامند کرلیا.
اس طویل بحث کا نتیجہ 1936 کو محبوب خان کی دوسری فلم “منموہن” کی صورت برآمد ہوا جو بلاشبہ ایک اچھی فلم کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہے. منموہن کی کہانی بنگالی زبان کے معروف ناول “دیوداس” سے ماخوذ ہے مگر اسکرین رائٹر ضیا سرحدی نے دیوداس کو جاگیردار خاندان کے ناز و نعم میں پلتے اناپرست نوجوان کی مانند دکھانے کی بجائے غریب اور نچلے طبقے کے محنت کش کے روپ میں دکھایا. فلم اور ضیا سرحدی کے لکھے گیتوں کو محنت کش طبقے نے ہاتھوں ہاتھ لے کر فلم کو سپرہٹ کی سند بخش دی.
“اگر دینی تھی ہم کو حور و جنت تو یہاں دیتے” ؛ 1937 کو یہ گیت سریندر کی آواز میں ہندوستان بھر میں پھیل گئی. محبوب خان کی فلم “جاگیردار” کے اس گیت کے خالق انسان دوست ضیا سرحدی تھے. اس فلم کے بھی بیشتر گانے انہی کی تخلیق ہیں.
ضیا سرحدی کی قابلیت دیکھ کر ساگر فلم کمپنی کے مالکان اور محبوب خان نے صلاح مشورے کے بعد 1938 کی فلم “ابھیلاشا” کو ہدایت دینے کی ذمہ داری ان کے کندھے پر رکھ دی. اس ذمہ داری کو انہوں نے بخوبی نبھایا. اس دوران محبوب خان ان کے گرویدہ ہوچکے تھے، وہ اپنی ہر فلم اور ہر آئیڈیا پر ضیا سرحدی کی رائے کو اہم سمجھتے تھے.
سروج موی ٹون فلم کپمنی کی دعوت پر انہوں نے 1939 کی فلم “افسانہ” کے گیت اور اسکرپٹ لکھنے کے ساتھ ساتھ اس فلم کو ہدایت بھی دی اور اسی سال انہوں نے فلم “بھولے بھالے” کو بھی اپنی ہدایت کاری سے نوازا. ان کی اسکرپٹ رائٹنگ کے چرچے ہر جگہ پھیل چکے تھے اس لیے اس دور کی ایک اور بڑی فلم کمپنی رنجیت اسٹوڈیو نے بھی ان کے علم اور ذہانت سے بھرپور فائدہ اٹھایا.
1941 کو محبوب خان کو نیشنل اسٹوڈیو کی جانب سے فلم بنانے کی درخواست کی گئی. محبوب خان نے اس کے لیے ضیا سرحدی سے مدد طلب کی جنہوں نے ایک خوب صورت اسکرپٹ لکھ کر محبوب خان کے حوالے کردیا جس پر بعد ازاں محبوب خان نے فلم “بہن” بنائی.
ضیا سرحدی نے کبھی بھی اپنا تعارف ایک مارکسسٹ فلم ساز اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے نہیں کروایا مگر ان کی تمام تر تخلیقات مارکسزم کے فلسفے کے گرد ہی گھومتی ہیں. وہ کبھی ترقی پسند فلم ایسوسی ایشن “اپٹا” کے ممبر نہیں رہے مگر ان کی فلمیں اپٹا تحریک کے ہی زیرِ اثر رہیں. بالخصوص ان کی فلمیں “ہم لوگ” (1951)، “فٹ پاتھ” (1953) ، “آواز” (1956) واضح طور پر دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں اور تقسیم ہند کو مارکسسٹ نکتہ نظر کے ساتھ انتہائی گہرے تجزیے کے ساتھ پیش کرتی ہیں.
ان فلموں میں دلیپ کمار اور مینا کماری کی ناقابلِ فراموش اداکاری سے مزین “فٹ پاتھ” میری دانست میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے. اس فلم کو ضیا سرحدی کی سوچ اور فکر کے زاویے کا نچوڑ قرار دیا جاسکتا ہے.
تقسیم ہند کے بعد گوکہ ضیا سرحدی نوزائیدہ پاکستان ہجرت کرگئے مگر ہندی سینما سے انہوں نے اپنا اٹوٹ بندھن برقرار رکھا. 1952 کی شہرہ آفاق فلم “بیجو باورا” کے ڈائیلاگ ہوں یا 1957 کی کلاسیک “مدر انڈیا” کا آئیڈیا، ضیا سرحدی کے بغیر ان کا ذکر ادھورا ہی رہے گا. “دل کی دنیا” ، “کھیل” اور “انوکھی ادا” کے اسکرپٹ بھی انہوں نے پاکستان میں ہی رہ کر لکھے.
بدقسمتی سے ہندی سینما کے یہ ذہین اور عوام دوست فن کار آج وقت کی دھول میں کھو چکے ہیں. مگر جب جب کوئی “فٹ پاتھ” فلم دیکھے گا، تب تب ضیا سرحدی پوری آن بان اور شان سے اپنے نظریات اور عوامی سوچ کے ساتھ دکھائی دیں گے.
کہا جاتا ہے کہ ضیا مارشل لا کے دوران کمیونسٹ ہونے کے الزام میں وہ گرفتار کیے گئے. جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے پاکستان چھوڑ کر یورپ میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ فلمی دنیا کے بے مثل فن کار اور سماج کے نباض، ضیا سرحدی 27 جنوری 1997 کو یورپ میں انتقال کر گئے.
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ان کی موت کو آج کے گلیمرائزڈ ہندی سینما میں کسی نے توجہ کے قابل نہ سمجھا مگر امید ہے وہ وقت ضرور آئے گا جب سینما کو دوبارہ ضیا سرحدی جیسے نابغہ روزگاروں کو دریافت کرنا پڑے گا.
پی ٹی وی کے ڈراموں میں خیام سرحدی کی فطری اداکاری دیکھنے والے افراد کو یہ جان کر شاید حیرت نہ ہوں پاکستانی ڈراموں کے یہ مایہ ناز فنکار ضیا سرحدی کے ہی چشم و چراغ ہیں.

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply