میری ماں کا خون(ایک تخیلاتی تحریر)۔۔۔۔ شاہد کاظمی

جب سے یہ علم ہوا تھا کہ چاچو کی شادی ہے ۔۔۔ ہم سب بہت خوش ہیں۔۔۔ بابا نے ہماری خوشی یہ کہہ کے دوبالا کر دی کہ ہم سب اس شادی میں بطور خاص شرکت کریں گے۔۔۔ بابا کے واٹس ایپ پہ چاچو کے ہاں ہوتی لائٹنگ دیکھ کے تو دل چاہتا ہے ابھی اُڑ کے وہاں پہنچ جاوں۔۔۔ ہمیشہ چھٹیوں میں ہی وہاں جا پاتے ہیں۔۔۔ چاچو سے اپنے لاڈ اٹھوائے بہت دن ہو گئے ۔

۔۔ اور اس دفعہ تو میں نے پہلے سے ہی لسٹ تیار کر لی ہے کہ وہاں جا کے کیا کچھ لینا ہے، اپنی ہمجولیوں تک سے جن کے اکا دُکا نام مجھے یاد ہیں ان سے مل کے اٹھکھیلیاں کیسے کرنی ہیں، اور جن کے مجھے نام یاد نہیں، ان کے چہرے مجھے اَزبر ہیں، ان کے ساتھ مسکرانے کا بھی پورا پروگرام بن چکا ہے۔۔۔بابا کہتے ہیں انہوں نے اَنکل کو گاڑی کا کہہ دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور بس انہوں نے تیار رہنے کا پیار سے ڈانٹے ہوئے حکم بھی دے دیا ہے۔۔۔ وہ مسکراتے جاتے ہیں ۔۔۔ اور میں جانتی ہوں وہ دل ہی دل میں جب مجھے دیکھتے ہیں تو اس کم سنی میں بھی وہ مجھے قرآن کے سائے میں رخصت ہوتا ہوا بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ یہ میں نے اکثر سُنا ہے اپنی امی کو سہیلیوں سے باتیں کرتے ہوئے، کہ ماں باپ بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کی رخصتی کاسوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
۔۔ اور جب بابا مجھ سے چہرہ چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتے ہیں تو میں پھر بھی ان کے آنسو دیکھ لیتی ہوں۔۔۔ اور دل چاہتا ہے میں کبھی اُن سے جدا نہ ہوں۔۔۔ کیوں کہ مجھ سے اپنے بابا کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔
بابا نے صبح ہی چاچو کو فون کر کے اطلاع دے دی ہے کہ ہم آ رہے ہیں۔۔۔ وہ ہر دوسری بات میں انتظامات کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
۔۔ امی نے بطور خاص ہم دونوں کو ایک جیسے کپڑے پہنائے ۔۔۔ اور انہوں نے بطور خاص ہماری نظربھی اُتاری ۔۔۔ بھائی کی نظر تو وہ ہر لمحے اُتارتی ہی تھیں۔۔۔ مگر آج نہ جانے ہم لگ بہت حسین رہی تھیں یا امی کو کچھ خوف تھا۔۔۔ وہ بار بار ہمارا چہرہ ہاتھوں میں تھام کے کبھی ہمارا ماتھا چومتیں، کبھی گالوں پہ پیار کرتیں، کبھی ہم دونوں کو گلے سے لگا لیتیں۔
۔۔ ان کے گلے لگانے میں ایک ایسی تڑپ تھی جیسے وہ ہم سے بہت دور جا رہی ہوں۔۔۔ جب کہ ہم تو سب اکھٹے شادی میں جا رہے تھے۔۔۔ دیکھو عمیر اپنی بہنوں کا بہت خیال رکھا کرو۔۔۔ ایسا تو انہوں نے نہیں کہا تھا کبھی، مگر آج بھائی کو بطور خاص تلقین کی تھی۔۔۔ آپی اب بڑی ہو رہی تھیں، وہ خود سے تیار ہو لیتی تھیں۔۔۔ یا خود سے تیار ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔
۔۔ وہ جب کمرے سے نکلیں تو امی کے لب ہل رہے تھے۔۔۔ جیسے وہ آپی پہ کچھ پڑھ کے پھونک رہی ہوں۔۔۔ مائیں تو شاید ایسی ہی ہوتی ہیں نا۔۔۔ پڑھ پڑھ کے بچوں کے علم میں لائے بغیر اُن پہ پھونکنے والی۔۔۔
ہم روانہ ہو چکے ہیں۔۔۔ نہ جانے کیوں آج میری اورمنیبہ کی امی بلائیں بار بار کیوں لے رہی ہیں۔۔۔ عمیر تو بے فکرا ہو کے باہر کے نظاروں میں کھو چکا ہے۔
۔۔ امی وہاں جا کے کیا کرنا ہے ۔۔۔ کس سے ملنا ہے۔۔۔ کون سا کام کون سے وقت پہ کرنا ہے۔۔۔یہ سب منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی ہیں۔۔۔ بابا انکل کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہیں، کبھی کبھی باتوں میں سکوت سا چھا جاتا ہے ، مجھے خاموشی سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔ سکوت ہوتے ہی بلاوجہ میں منیبہ یا عمیر کو تنگ کرتی ہوں ۔۔۔ اور گاڑی میں دوبارہ سے شور بلند ہو جاتا ہے۔
۔۔ بابا کبھی کبھی فون پہ آگے کی صورت حال جانتے ہیں۔۔۔ وہاں سب ہمارے منتظر ہیں۔۔۔ بابا بار بار امی سے یقین دہانی بھی لیتے ہیں کہ تحائف تو رکھ لیے ہیں نا۔۔۔ اور امی بتا بتا کے تنگ آ چکی ہیں۔۔۔ پھر بھی مسکرا کے دوبارہ سے بتاتی ہیں۔۔۔ آپی سے کبھی میں، کبھی مینبہ اور کبھی عمیر باہر کے نظاروں کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔۔۔ آپی خود بھی بچپن میں تو ہیں مگر ہم سے تو بڑی ہیں، اور ایسا لگتا ہے وہ ابھی سے ہمارا خیال رکھنا شروع ہو گئی ہیں۔
تیرہ سال۔۔۔ یہ کوئی عمر تو نہیں ہوتی نا۔۔۔
انکل گاڑی چلا رہے تھے۔۔۔ بابا شائد فون پہ چاچو سے پہنچنے کے وقت کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔ امی عمیر اور منیبہ کو جیسے بازوؤں میں لیے تھیں۔۔۔ ایسا لگتا تھا انہیں چھن جانے کا ڈر ہو۔۔۔ آپی مسکراتے ہوئے باہر کا نظارہ کر رہی تھیں۔۔۔ اچانک سیاہ گاڑی نے جیسے ہماری جنت میں دخل دے کر اُسے روند دیا۔
۔۔ گاڑی ڈگمگائی۔۔۔ نہ جانے کہاں لگی مگر ہم سب جیسے اپنی جگہ سے ہل گئے۔۔۔ آپی کی چیخ تھی یا منیبہ کی، سمجھ نہیں آیا۔۔۔ کیوں کہ ہم سب ہی زور سے چیخے تھے ۔۔۔ اب نہ جانے کس کی چیخ بلند تھی کس کی نہیں۔۔۔ سمجھ نہیں آیا تھا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔ تڑ تڑ تڑ۔۔۔ بس ایک آواز آئی اور آپی کی دردناک چیخ بلند ہوئی۔۔۔ انہوں نے شاید امی کو پکارا تھا۔۔۔ امی ابھی آپی کو تھامنے لپکی تھیں کہ ۔
۔۔ تڑ تڑ تڑ۔۔۔ اب کے بلند ہونے والی آواز امی کی تھی۔۔۔ آواز نہیں تھی، آسما ن چیرتی ہوئی کوئی پکار تھی۔۔۔ بابا زور سے چیخ چیخ کے کچھ بول رہے تھے۔۔۔ اَنکل ان کی گود میں جھول سے گئے تھے۔۔۔ بابا کے کپڑوں پہ سرخ رنگ سا نظر آنے لگا تھا۔۔۔ یہ رنگ ہی تو ہے نا۔۔۔ مجھے کیا پتا کہ رنگ ہے کہ نہیں۔۔۔ یہی رنگ امی اور آپی کے لباس میں بھی آ گیا ہے۔
۔۔ مگر نہ جانے کیوں امی نے ہمیں بانہوں میں دبوچ لیا ہے۔۔۔ امی میرا سانس گھٹ رہا ہے۔۔۔ لیکن شاید امی کو معلوم تھا چھوڑا تو سب چھوٹ جائے گا۔۔۔ اب امی کی سانسیں سنائی نہیں دے رہیں۔۔۔ آپی کے بنے سنورے بال سرخ سا رنگ اوڑھ چکے ہیں۔۔۔ عمیر چیخ رہا ہے۔۔۔ اپنا پاؤں پکڑے ہوئے۔۔۔ بابا کا سر سیٹ سے لگ گیا ہے۔۔۔ اَنکل بابا کی گود میں سر رکھے لڑھک سے گئے۔
سمجھ نہیں آتا ہوا کیا ہے۔۔۔ ہمیں کچھ لوگ لے آئے اور راستے میں چھوڑا۔۔۔ شاید بابا اور امی آپی کے ساتھ چاچو کے گھر پہنچ چکے اور ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ گئے۔۔۔
امی جان! آپ کہاں ہیں۔۔۔ عمیر کو چوٹ لگ گئی ہے۔۔۔ آپ تو اس کو کانٹا چھبنے پہ بھی روتی تھیں۔۔۔ بابا مجھے اور منیبہ کو خراشیں تکلیف دے رہی ہیں، آپ کہاں ہیں۔۔۔ چاچو ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے بابا جان۔
۔۔ آپ کہاں ہیں۔۔۔ امی آپ ہم سے ناراض ہیں تو ہمارا وعدہ ہے ہم تینوں آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔۔ ۔ آپ واپس آ جائیں نا۔۔۔ بابا عمیر اپنے چہرے سے یہ سرخ رنگ صاف نہیں کرنے دے رہا کسی کو بھی۔۔۔ وہ روتا ہے تو رونے میں جیسے سمجھدری ہے، بابا وہ سمجھتا ہے شاید کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ مگر بابا ہمیں نہیں پتا کیا ہوا ہے۔۔۔ عمیر چہرے سے رنگ صاف کرنے کی کوشش پہ بس اتنا کہتا ہے۔۔۔ اسے نہ صاف کرو، یہ میری ماں کا خون ہے۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply