ڈسپوزیبل گلاس۔۔۔جواد بشیر

امریکہ میں جب ڈسپوزیبل گلاس میں چائے،کافی،وغیرہ کا رواج شروع ہوا،تو یہ اشارہ تھا کہ اس معاشرے میں رشتوں کے ساتھ بھی یہی سلو ک ہوگا،استعمال کرے،اور پھینک دیے۔۔کہتے ہیں قبروالا تب تک نہیں مرتاجب تک اُس کی قبر پر فاتحہ کرنے والے آتے رہیں،جس دن یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے،قبر والا حقیقت میں مر جاتا ہے۔جس دن احساس مرتا ہے،معاملات ختم ہوجاتے ہیں۔رشتوں کی موت ہوجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تھوڑا اور آگے کی سوچیے تو اندازہ ہوگا کہپہلے کنویں کے پانی،پھر نلکے کے پانی اور پھر لال پمپ،پھر سرکاری پانی،پھر نہری اور اس کے بعد فلٹر کے پانی تک یہ سفر طے کرتے کرتے ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ ہمارا ملک مستقبل قریب میں اس کمی کا بُری طرح شکار ہوگا۔جس طرح ہمیں فلٹر کے پانی کے استعمال تک پہنچتے کا احساس نہیں ہوا،اسی طرح منہ پر ماسک لگا کر گھومنے والا وقت بھی قریب ہے،اورہمیں اس کا احساس نہیں۔اس کے لیے کوشش یا پیش رفت کرنا تو دور کی بات،جب احساس ہی مرچکا ہے تو کوشش کیا خاک کرے گا کوئی۔
ہم سب بحیثیت پاکستانی آنے والی نسلوں کے مجرم ہوں گے،کیونکہ ہم بے حس ہوچکے ہیں،رشتے ہوں یا قدرتی وسائل،ہم استعمال کررہے ہیں،اورپھینکتے جارہے ہیں۔

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply