عید,ایثاراورہم

شہروں میں مقدس ترین شہر ہے جس میں گھر وہ ہے جو اس روئے زمین پر معبود برحق کی عبادت کے لیے سب سے پہلے بنایا گیا جہاں اپنے آپ کو مومن کہلوانے والے دور دراز کا سفر کر کے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنے جاتے ہیں اور آئندہ برائیوں سے بچنے اور اعمال صالح بجا لانے کا عہد کرتے ہیں۔ وقت نماز ظہر کی ادائیگی کا تھا ‘ دسمبر کا مہینہ ہونے کے باوجود بعد از دوپہرگرمی اور پیاس کی شدت کا احساس ہوتا ہے‘ مسجد الحرام کے صحن میں نماز ادا کرنے والے نماز کی ادائیگی کے بعد صحن میں لگے آب زم زم کے نلوں کی طرف لپکتے ہیں جس کی بدولت کافی دیر تک ان کے قریب رش رہتا ہے۔

دو جوان جو اپنی وضع سے خطہ برصغیر کے رہنے والے اور مبلغ اسلام لگتے تھے ‘ سب سے آگے آب زم زم سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے جن کی پشت پر کھڑا ایک ضعیف شخص پیاس کی شدت سے کراہ رہا تھا اور پانی مانگ رہا تھا ۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے بوڑھے شخص کی حالت دیکھ کر دونوں حضرات سے درخواست کی پہلے اس بوڑھے شخص کو پانی پلا دیں لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی اور آرام سے خود پانی پی کر چل دیے۔ اس منظر کو دیکھ کر میں کافی دیرتک سوچتا رہا کہ اپنے ملک واپسی پر یہ لوگ بڑی بڑی مبارک بادیں وصول کریں گے‘ لوگوں کو روح پرور قصے سنائیں گے‘ کسی مسجد کے منبر یا کسی محفل میں بیٹھ کر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم اور لازوال قربانی کا درس دیں گے اور ایثار کرنے کی تلقین کریں گے۔ ہمارے قول و فعل میں آخر اتنا تضاد کیوں ہے؟

ایثار در حقیقت فیاضی کا سب سے بڑا اور سب سے آخری درجہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ذاتی ضرورت پر مقدم رکھا جائے‘ خود بھوکا رہے اور دوسرے کو کھلائے‘ خود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچائے۔صحابہ کرامؓ میں انصار کا سب سے بڑا اخلاقی وصف یہ تھا کہ مکہ کے مہاجر جب بے خانماں ہو کر اور اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ آئے تو انصار نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کو اپنے گھر دیے‘ باغ دیے‘ کھیت دیے‘ اپنی محنتوں میں ان کو شریک کیا اور خود ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا کر ان کو آرام پہنچایا‘ پھر جب بنی نضیر کی زمین مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور آنخضرتﷺ نے دو انصاریوں کے سوا باقی ساری زمین مہاجروں کو دے دی تو انصار نے ہنسی خوشی اس فیصلہ کو تسلیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی اور ان کی مدح و ستائش کی۔

ترجمہ: اور (ان کے لیے)جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ)اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو(بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیاوہی کامیاب (اور بامراد) ہے (حشر‘۹)۔

بحرین جب فتح ہوا تو آپﷺ نے انصار کو بلا کر فرمایا کہ میں اس کو انصار کی جاگیروں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں ۔ ان ایثار کے پیکروں نے عرض کی جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ ملے ہم کو یہ منظور نہیں۔ فرمایا اگر یہ منظور نہیں تو صبر کرو‘ میرے بعد تم کو یہ تکلیف پہنچے گی کہ لوگ لے لیں گے اور تمھیں نہیں پوچھیں گے(صحیح بخاری اول باب مناقب انصار)۔

ایک دفعہ ایک مسلماں خاتون نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بُن کر آپﷺ کی خدمت میں پیش کی ‘ آپ نے ضرورت مند ہو کر اس کے اس تحفہ کو قبول کر لیا۔ اسی وقت ایک غریب مسلمان نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ مجھے عنایت ہو‘ آپﷺ نے اسی وقت اتار کر ان کے حوالہ کر دی‘ صحابہؓ نے ان کو ملامت کی کہ تم جانتے تھے کہ رسول اللہ کو اس کی حاجت تھی اور آپ کسی کا سوال رد نہیں فرماتے تم نے کیوں مانگ لی؟ بولے ہاں میں نے تو برکت کے لیے لی ہے کہ یہی چادر میرا کفن بنے (صحیح بخاری باب حسن الخلق)۔

ایک دفعہ ایک بھوکا آدمی رسول اللہ کی خدمت میں آیا۔ کاشانہ نبوی میں اس وقت پانی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص آج رات اس کو اپنا مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا۔ یہ سعادت ایک انصاری کو حاصل ہوئی اور وہ اس کو اپنے گھر لے گئے ۔ بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے؟ بولیں‘ صرف بچوں کاکھانا۔ بولے بچوں کو سلا دو اور چراغ بجھا دو‘ ہم دونوں رات بھر بھوکے رہیں گے البتہ مہمان پر ظاہر کریں گے کہ کھا رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ صبح کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ آپ نے فرمایا اللہ تمہارے اس حسن سلوک سے بہت خوش ہوا(صحیح بخاری تفسیر سورہ حشر)۔

ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کر لے(صحیح بخاری کتاب النکاح)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عید ایثار کا تہوار فرزندان توحید ہر سال جوش و خروش سے مناتے ہیں‘ نمود و نمائش کے لیے یا پھر حقیقتاََ اخلاص کے ساتھ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے پیارے پیارے جانور خرید کر ان کی قربانی کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جانور کے گلے پر چلانے والی چھری دراصل اپنے نفس پر چلانی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اس واقعہ کی اصل روح کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی؟ کیا باقی دنوں میں اس کے پیغام پر عمل کرنے کا تہیہ کیا؟ کیا حضرت اسماعیلؑ جیسا صابر اور فرمانبردار بننے اور اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی طرح رب کائنات کا سچا ‘ ظالم و جابر سے ٹکرانے والااور حقیقی موحد بننے کے لیے محنت کی؟ شایدنہیں!

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply