اسلاموفوبیا۔۔انفال ظفر

اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایک مبالغہ آمیز خوف ، نفرت اور دشمنی جو منفی دقیانوسی تصورات کی بناء پر پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں تعصب ، امتیازی سلوک ، اور معاشرتی ، سیاسی ، اور شہری زندگی سے مسلمانوں کو خارج کردیا جاتا ہے۔

11 ستمبر 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے پہلے اسلامو فوبیا بنیادی طور پر موجود تھا ، لیکن پچھلی دہائی کے دوران اس کی تعداد اور بدنامی میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر ، امریکہ میں رننیمیڈ ٹرسٹ نے 1997 کی ایک رپورٹ میں اسلامو فوبیا کے آٹھ اجزاء کی نشاندہی کی ، اور اس کے بعد 2004 میں نائن الیون کے بعد اور افغانستان اور عراق جنگوں کے ابتدائی سالوں کے بعد ایک فالو اپ رپورٹ تیار کی۔ دوسری رپورٹ میں پایا گیا کہ دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں برطانوی مسلمانوں کی زندگی مزید مشکل ہوگئی تھی۔
ایک سروے میں انکشاف ہوا کہ امریکہ کے 38فیصد باشندے اسلام کو انتہا پسندی کا مذہب قرار دیتے ہیں۔امریکہ میں ہر چار میں سے ایک مسلمان کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے9/11کے واقعہ کے چھ دن بعد ہی چالیس کیسز میں مسلمانوں  پر قتل ،چوری ،انتہا پسندی کے الزام لگا کر جیلوں میں پھینک دیا گیا۔
اسلاموفوبیا کی آڑ میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں میڈیا کا کردار سب سے کلیدی ہے۔اگر ایک مسلمان کسی کو قتل کرے تو وہ دہشت گرد اور اگر ایک غیر مسلم کرے تو اسے مجرم کہا جاتا ہے۔تو اس لحاظ سے دہشت گرد اور مجرم میں کوئی فرق نہیں۔
چونکہ امریکیوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو نہیں جانتے ، ان کی معلومات بنیادی طور پر میڈیا سے آتی ہیں ، اور میڈیا مزاحیہ تعصب کا شکار ہے۔ میڈیا ٹینور   کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ، مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں 90 فیصد نیوز میڈیا منفی تھے۔ ایک اور تحقیق ، جس میں 416 لیبز نے کی تھی ، پتہ چلا ہے کہ پچھلے 25 سالوں میں ، نیو یارک ٹائمز نے کینسر اور کوکین سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی کی ہے۔
پچھلے دنوں آسٹریلیا میں چھ ماہ  کی مسلمان حاملہ عورت پر ایک عیسائی نے دھاوا بول دیا اور ناروے میں قرآن مجید جلانے کا واقعہ اسلاموفوبیا کی تازہ مثالیں ہیں۔یہ رویہ کافی سالوں سے یورپی ممالک میں چل رہا ہے۔جس میں حجاب یا برقعہ پہنے مسلمان عورتوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر  ہراساں کیا جاتا ہے۔تو آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان ہی صرف بدنام ہے۔اکبر آلہ آبادی کا شعر اس بات کو یوں سمجھاتا ہے۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

برما میں ہزاروں مسلمانوں کا بدھ مت کے پیروکار کے ہاتھوں قتل عام اور کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد میں پچاس نمازیوں کو شہید کرنا اسلامو فوبیا کی دردناک مثالیں ہیں۔کیا دہشت گردی ہی وہ وجہ ہے جس سے اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے یا پھر کوئی اور ذرائع ہیں جو اسلام کے امیج کو غلط بتا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ دہشت گرد حملوں میں مسلمان بھی ملوث ہوتے ہیں مگر یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سارے دہشت گرد مسلمان ہیں۔کیونکہ دنیا میں کئی مثالیں ایسی ہیں جس میں غیر مسلموں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔اور میڈیا اور عالمی رہنماؤں نے دہشت گرد کا نام مسلمان سے جوڑ دیا۔دراصل یہ امیج بہت سالوں سے تمام لوگوں کے ذہنوں میں بنا دیا گیا ہے کہ حجاب پہننے والی خواتین اور داڑھی رکھنے والے افراد دہشت گرد ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مسلئے کا پہلا حل میڈیا پر مثبت خبروں کا آنا اور مسلمان کے مثبت امیج کو میڈیا پر دکھانا ۔لوگوں کو انسانیت سے پیار و محبت کے متعلق اسلامی تعلیم دینا۔سب لوگوں کو امن کا پیغام دینا۔اور ہم یہ پیغام اپنے اعمال اور حسن اخلاق سے دے سکتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کو اس وقت متحد ہونے کا وقت ہے کیونکہ سب کی آواز مل کر ایک سننے والی اور گرج دار آواز ہوگی جو ہمارے مطالبات کو پورا کرے گی۔

Facebook Comments

Anfalzafar
میں یو ای ٹی میں انجنیئر نگ کاطالب علم ہوں۔میرے مطابق لکھاری یا ادیب کا لکھنے کا مقصد واہ واہ حاصل کرنا یا شہرت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ لکھے تو مقصد ہو کہ پڑھنے والے کی اصلاح ہو ،پڑھنے والے کو تحریر سے علم ملے وہ محظوظ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply