کتابوں کا خوف

کتاب سے میرا عشق بہت پرانا ہے۔ والد مرحوم کی کتابیں پھاڑنا اور پھر تھپڑ کھانا گو کافی بچپن کی بات ہے، مگر یاد ہے۔ شاید عشق کی ابتدا میں انسان ہمیشہ زرا متشدد ہوتا ہے، حتی کے محبوب کے حق میں بھی۔ پھر زرا بڑا ہوا تو وہی کتابیں پڑھنے لگا خواہ سمجھ آئیں یا نا آئیں۔ لائبریری کا چسکا آرمی پبلک سکول سیالکوٹ میں پڑا جہاں ہر بدھ کو ایک کتاب ایشو کروائی جا سکتی تھی۔ گھر میں سختی تھی کہ کورس کے علاوہ کچھ نا پڑھو تو بستے میں چھپا کر لاتا تھا اور پھر باتھ روم میں چھپ کر پڑھتا تھا۔ آج بھی باتھ روم کتاب کے بغیر نہیں جاتا۔

زرا بڑا ہوا تو کئی لائبریریوں کی خاک چھانی۔ لاہور سمن آباد کی کرایہ لائبریری والے انکل نے آخر ایک دن کہا، “بیٹا اب یہاں موجود سب تم پڑھ چکے، پنجاب پبلک لائبریری چلے جاو”۔ ایک عرصہ وہاں بھی گیا۔ نیلا گنبد میں ایک اتوار بازار لگتا ہے کتب کا، سمجھیے اتوار کے دن میرا گھر ہوتا تھا۔ اتوار کو دوست مجھے گھر نہیں ملنے جاتے تھے، اس کتاب بازار میں دھونڈتے تھے۔ کیا کیا نادر کتاب ملی اس گڈری سے۔ اب بھی پاکستان جاوں تو “اِس بازار” کے چکر کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتا ہوں۔ کتاب سے عشق، معشوق سے عشق سے کم نہیں ہوتا کہ محبوب خواہ کتاب ہی ہو، وارفتگی پیدا کر دیتا ہے۔

پاکستان جاتے ہوے تو میرے بیگ بھانجے بھانجیوں کے تحفوں سے، مگر آتے ہوے کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ میری اماں کو میری گھر بھر میں بکھری کتابوں سے اتنی چڑ تھی کہ میرے پاکستان سے نکلتے ہی بارہ چودہ سو کتاب ڈبوں میں بند کرا کے سرونٹ کواٹر میں رکھوا دیں۔ جب بھی جاتا ہوں، ان سے ملتا ہوں، گرد صاف کرتا ہوں، باتیں کرتا ہوں اور کہتا ہوں، جب پڑھنے والا نا رہے تو کتابیں بھی رشتہ دار کے گھر رہتا ہوا یتیم ہو جاتی ہیں، لاوارث اور کسی سرونٹ کواٹر کا حقدار۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی کچھ اپنی لائبریری اور کچھ نئی، کل ملا کر پچاس پچپن کتابیں بیگ میں تھیں اور “مکالمہ” کے پچاس رسالے بھی۔ لاہور ایئرپورٹ پہ سامان سکینر سے گزرا تو کسٹم والے بھائی کنفیوز ہو گئے۔ بیگ کھول کر کتابیں دیکھیں اور کہنے لگے “اتنی کتابیں؟”۔ میری مسکراہٹ پر کتابوں کو ہلا ہلا کر دیکھا کہ “ساقی نے ملا نا دیا ہو کچھ کتاب میں”۔ پھر کہنے لگے اتنی کتابیں کیوں لیجا رہے او جی؟ میں نے سنجیدہ سا منہ بنا کر انکے کان کے پاس کیا اور سرگوشی سے کہا، “کسی نو دسنا نا، پڑھنے کیلیے”۔ قہقہ مار کے کہنے لگے “یار عجیب ہی بندہ ایں”۔

دبئی ایئرپورٹ اترا تو باہر سترہ اٹھارہ “مکالماتی دوست” سمیت مرشد قاری حنیف ڈار موجود تھے۔ ٹرانزٹ انٹری لے کر جب کسٹم سے دستی بیگ گزارا تو کسٹم والی عربی میں کچھ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔ سچ پوچھیئے تو عربی عورت عربی بولتے بہت ہی پیاری لگتی ہے۔ اب آنسہ نے جو بیگ کھولا تو اندر کچھ بیس کتابیں اور پندرہ بیس “مکالمہ میگزین” تھے۔ سوال آیا، تمھارے پاس کتابیں کیوں ہیں؟ ارادہ تو لاہور ایئرپورٹ والی سرگوشی کا تھا مگر خوف تھا کہ کہیں کوئی حد یا بے حد ہی نا لگ جائے۔ سو کہا کہ پڑھنے کا شوق ہے۔ بولی کہ مگر پاکستان سے تو “فوڈ” آتی ہے۔ عرض کی کہ جی کتابیں بھی ہوتی ہیں مگر اب فوڈ زیادہ ہوتی ہے۔ بولی کہ ان کتابوں میں لکھا کیا ہے؟ میں نے کہا مختلف موضوع ہیں۔ اب اتنا تو سمجھ آ چکا تھا کہ کتاب اور بم دبئی میں بھی مشکوک ہیں تو سوال کے جواب سوچ کر دینے شروع کئیے۔ “من و یزداں” اٹھا کر بولی، یہ کیا ہے؟ میں نے کہا ڈرامہ ہے۔ حضرت حسین احمد مدنی کی تین کلو بھاری کتاب کو انتہائی مشکوک نظر سے الٹتے پلٹتے پوچھا، یہ؟ میں نے کہا اردو کا مشہور ناول ہے۔ الف لیلہ کا ترجمہ۔ اس پہ آنسہ مسکرائیں، اور ہئے کیا خوب مسکرائیں کہ مرجینہ ہی لگیں۔ بولیں کہاں جاو گے؟ جی کیا کہوں کہ جہاں لے جاو، مگر پھر وہی حد کا خوف جو بے حد تھا۔ سوچا کہ کہوں، باہر عظمت نواز کھڑا ہے، اسکو یہ کتابیں دے کر بدلے میں میسینوں کے نمبر لوں گا۔ مگر پھر سوچا میں تو چلا جاوں گا، عظمت بیچارہ میسینیوں اور نوکری، دونوں سے جائے گا۔ سو کہا بس ہوٹل جا کر سونے لگا ہوں۔ باہر نکلا تو یقین کیجیے قاری صاحب اور دیگر سے گلے ملتے یہ خوف مسلسل تھا کہ پیچھے سے پولیس ہی نا آ جائے اور یہ “استقبالیہ ٹیم” کتاب کے جرم میں دھر لی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہیتھرو پہ اترا تو کسٹم والے نے مسکرا کر کہا، اتنی کتابیں؟ میں نے کہا ہاں۔ بولا کوئی اچھی بات سیکھو تو اگلی بار مجھے بھی بتانا۔ میں نے کہا اک بات تو اس بار ہی سیکھی ہے سن لو۔ “لندن میں کسی کو کتابوں سے ڈر نہیں لگتا”۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply