کیا ہم اپنا مسلم ہیرو بچا پائیں گے؟۔۔فراست محمود

حی و قیوم اللّٰہ،سمیع و بصیر اللّٰہ اور سمیع و بصیر ایسا کہ اگر سیاہ رات میں سیاہ غار میں سیاہ چیونٹی بھی اسے مدد کے لئے پکارتی ہے تو نہ صرف اس کی چیخ و پکار کو سنتا ہے بلکہ مدد بھی کرتا ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ جب بھی اپنا کام لینا چاہتا ہے تو وہ اسباب خود ہی پیدا کر لیتا ہے۔کن کہہ کے اتنا بڑا جہاں تخلیق کرنے والا رب چاہے تو ابابیلوں سے ابرہہ کو مروا دیتا ہے نمرود کو مچھروں سے مروا دیتا ہے۔کربل کے میدان میں اقلیتی تعداد والے حسین سے اسلام بچا لیتا ہے اور ناروے میں اکیلے عمر الیاس سے قرآن پاک کو جلنے سے بچا لیتا ہے۔

پچھلے ہفتے ناروے کے نوے ہزار آبادی رکھنے والے جنوبی شہر کرسٹیان سینڈ میں اسلام مخالف تنظیم کی طرف سے مقامی انتظامیہ کی اجازت سے ایک ریلی نکالی گئی جس کا مقصد آزادی اظہار رائے کے نام پہ مسلم امہ کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور مسلمانوں کو اشتعال دلا کر دنیا کے سامنے دہشتگرد ثابت کرنا تھا۔
یہ ریلی سیان نامی تنظیم جو کہ سنہ 2008 میں بنائی گئی جس کا مقصد اسلام کی تعلیمات کو غلط قرار دینا اور مذہب اسلام کو دہشتگرد قرار دینا ہے۔
یہ تنظیم بھی متشدد اور انتہا پسند سمجھی جاتی ہے اور اسلام مخالف سرگرمیوں میں ماضی میں بھی اکثر ملوث پائی جاتی ہے ۔

16 نومبر 2019 کو ہونے والے واقعہ جو سوشل میڈیا پہ 22 نومبر کووائرل ہوا اور پلک جھپکتے میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا جس میں اس سیان نامی تنظیم کا نائب لیڈر “لارس تھامسن” قرآن مجید کو آگ لگاتا ہے اور مجمع میں موجود ایک مسلمان نوجوان جس کا نام عمر الیاس معلوم ہوا ہے ۔قرآن مجید کی اس بے حرمتی کو برداشت نہ کر سکا ہے اور لارس تھامسن پہ حملہ کرتا ہے۔(بھلا یہ ممکن ہی کیسے ہے کوئی قرآن مجید جلائے اور عمر دیکھتا رہے۔ابو علیحہ).جس کے بعد 4,5 مزید جوان مذہبی تقدس کی پامالی پہ مشتعل ہو جاتے ہیں اور پولیس سب کو اپنی حراست میں لے لیتی ہے۔پہلے بھی لارس تھامسن انہی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک مہینہ جیل اور بیس ہزار نارویجین کرون جرمانہ کی سزا کاٹ چکا ہے۔

جو حقائق مقامی مسلمان لوگوں کی زبانی سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلے ہیں ان کے مطابق یہ مقامی انتظامیہ کی قانونی تقاضوں کے مطابق دی گئی اجازت کے بعد ریلی نکالی گئی جس میں طے کیا گیا کہ قرآن مجید کو جلایا نہیں جائے گا مگر لارس تھامسن نے قانون شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن مجید کو آگ لگائی۔اس حقیقت میں جھول بھی ہیں اور سوالات بھی ہیں جو اٹھ سکتے ہیں کہ آیا ایک ایسی تنظیم کو سر عام ایسی ریلی کی اجازت ہی کیوں دی گئی جس سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جائے۔

ناروے کو دنیا میں ایک امن پسند ملک سمجھا جاتا ہے اور سب کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہر قسم کی مذہبی اور اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔
پڑھے لکھے اور روشن خیال ماحول کے باوجود اس یورپی ملک میں ماضی میں بھی کئی بار مسلمہ امہ کی مذہبی تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے اور ہمسایہ ممالک ڈنمارک اور جرمنی میں بھی ایسے واقعات جنم لیتے رہے ہیں جو دنیا کا امن خراب ہونے کا باعث بن جاتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا کسی مذہب میں بھی شدت یا انتہا پسندی کی گنجائش ہے تو جواب یقیناً نہیں میں ہو گا۔کسی مذہبی تعلیمات میں یہ چیز شامل نہیں ہے کہ اقلیتیوں کے ریاستی اور مذہبی حقوق پامال کئے جائیں اور دل آزاری کی جائے۔
تمام مذاہب کے مذہبی لوگ ہی اتنے متشدد کیوں ہوتے ہیں کہ دوسرے کے مذہب کا نہ احترام کر پاتے ہیں اور نہ حقوق دے پاتے ہیں۔
بطور انسان مغربی اور مشرقی معاشرے کی اس پر تشدد سوچ سے ہم چھٹکارا کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

افغانستان کے پہاڑوں میں رہنے والے ملا عمر،ملا فضل اللہ،حکیم محسود یا مغربی معاشرے کے جدید آرائش و ٹیکنالوجی سے مزین ملکوں میں رہنے والے برینٹن ٹرینٹ،گیرٹ ویلڈر یا لارس تھامسن میں کوئی فرق نہیں ہے۔
نہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی ایسی پر تشدد سوچ کے حامل افراد کا مذہب سے کوئی تعلق ہوتا ہے یہ لوگ اپنے اپنے مذاہب کی آڑ میں دنیا کا امن و سکون تباہ کرتے ہیں۔
چونکہ مذہب کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے اور ہم لوگ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اپنی مذہبی رسومات اور مقدسات کی پامالی برداشت نہیں کر پاتے اور اس کے لئے بلا خوف و خطر سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں اور از خود ہی فیصلہ کرتے ہیں۔پھر قانونی تقاضوں کو نہ تو پورا کیا جاتا ہے اور نہ ہی قانون کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بطور مسلمان اور انسان عمر الیاس کی طرف سے کئے گئے اقدام کو میں ذاتی طور پہ قبول کرتا ہوں اور اس جذباتی کام کو دلی طور پہ سراہتا ہوں یہی ہونا چاہیے تھا جو کام عمر نے کر دیا ہے۔
ظاہری طور پہ اپنے مستقبل کی فکر کیے بغیر عمر نے الیاس صاحب نے قرآن مجید کو جلنے سے بچانے کی پوری کوشش کی ہے اور آئندہ کے لئے بتایا ہے کہ ہم مسلمان اتنی توہین کسی صورت برداشت نہیں سکتے۔
ناروے کی عدالت میں عمر الیاس اکیلا دھکے کھائے گا یا ہم مسلم ممالک اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور اپنے اس ہیرو کو بچا پائیں گے ؟؟؟؟
جواب آنے والے وقت پہ چھوڑتے ہیں۔
چونکہ لارس تھامسن جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو ہم غیر مسلموں کے ممالک سے ختم نہیں کر سکتے مگر انسانیت کی بقا اور اپنے اسلام کی تعلیمات کا پرچار کرنے کے لئے اپنے معاشرے کو اس سوچ سے پاک صاف کر سکتے ہیں جو عدالتی فیصلوں سے آزاد ہونے والی آسیہ مسیح کو چین سے جینے دیں۔
عمر الیاس آپ کی عظمت کو سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply