بابری مسجد کا باب ہمیشہ کے لئے بند ۔۔۔ رحمان حفیظ

بھارت سے آنے والی خبروں کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے 37 اضلاع کی سخت ترین فوجی اور انتظامی نگرانی کے دوران 2010 میں آنے والے الہ آباد ہائیکورٹ کابابری مسجد/ایودھیا رام جنم بھومی کی پونے تین ایکڑ متنازع زمیں کو فریقین میں تقسیم کر دینے کا فیصلہ منسوخ کر کے پورا متنازعہ علاقہ مندر کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی طے کیا ہے کہ چار سو سال پہلے یہ مسجد مندر کو گرا کر عین اس کےاوپر زبردستی تعمیر کی گئی تھی اور حیرت انگیز طور پرساتھ یہ بھی کہا ہے کہ 1992 میں ہندووں بلوائیوں کا اس مسجد کو گرا دینا بھی قانون کے خلاف تھا۔ عجیب صورتحال ہے کہ ایک غیر قانونی قدم اٹھانے والے فریق کو ہی کورٹ نے فائدہ پہنچا دیا جیسے ایک ڈاکو کسی کے گھر پر حملہ کرے اور عدالت وہ گھر اسی ڈاکو کو الاٹ کر دے۔
کورٹ نے اس فیصلے کے حق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ مدعی یوپی سنی وقف بورڈ سمیت مسلم جماعتیں متنازعہ اراضی پر خصوصی طور پر قبضہ قائم رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ یا حیرت!!
لیکن اس سارت قصے میں اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سلسلے میں شیعہ وقف بورڈ نے بابری مسجد کی ملکیت کے لئے سنی وقف بورڈ کے خلاف الگ دعویٰ بھی کیا ہوا تھا۔
اگر یہ مسجد مسلمانوں کو مل جاتی تو کیا یہ ایک نیا تنازع بن جاتا؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات اور خلاصہ یہ ہیں۔

ہائی کورٹ معاملے کو درست سمجھ نہیں سکی اور تہہ تک نہیں گئی۔
1992 میں ہجوم کا بابری مسجد کو مسمار کردینا خلافِ قانون تھا۔
تاریخی اعتبار سے 2.77 ایکڑ رقبے کی مکمل متنازعہ اراضی مندر کی ہے کیونکہ آثار بتاتے ہیں کہ مسجد مندر کی بنیاد پر تعمیر کی گئی تھی۔
اب یہ اراضی حکومت ہند کی ملکیت ہوگی۔ حکومت تین ماہ کے اندر اندر ایک بورڈ آف ٹرسٹی بنائے جو رام مندر کی تعمیر کرے۔
مدعی سنی وقف بورڈ کو قریب ہی الگ قطعہ زمیں دیا جائے جہاں وہ اپنی نئی مسجد تعمیر کر لیں۔
یوپی سنی وقف بورڈ سمیت مسلم جماعتیں متنازعہ اراضی پر خصوصی طور پر قبضہ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہندو جماعتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش تک یہ مانتے رہے اور مسجد کے اندر مستقل عبادت کرتے رہے۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ بیرونی صحن پر ہندوؤں کا خصوصی قبضہ رہا۔ 1856-58 میں لوہے کے ریلنگ سیٹ اپ نے مسجد کے اندرونی صحن کو بیرونی صحن سے الگ کردیا تھا لیکن اس سے پہلے بھی ہندوؤں نے مسجد کے اندرونی صحن تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابری مسجد کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ اس کی تعمیر ایک مسلمان میر باقی نے 1528-1529 میں شہنشاہ کی خواہش پر کی تھی جسے 1992 میں لاکھوں ہندو بلوائیوں نے گرا دیا تھا۔ بظاہر پاکستان کے قیام سے پہلے 1949 تک اس جگہ کے سلسلے میں کوئی بڑا تنازعہ سامنے نہیں آیا تھا۔ 1950 میں گوپال وشاراد نامی ایک ہندو نے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی یہ کہ جگہ رام کی جنم بھومی ہے یہاں پوجا کی اجازت دی جائے بعد ازاں اور بھی کئی کیس دائر ہوئے جن پر 2002 اور 2010 کے درمیان سماعت کے بعد زمین کی تقسیم کا فارمولا تجویز کیا گیا تھا جو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بے معنی ہو گیا۔ رپورٹس کے مطابق مسلمان اس فیصلے کے بعد یہ سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے حق میں کہیں بھی کوئی فیصلہ آنا ممکن نہیں ہے اس لئے اس کیس کے مدعی نے بھی بظاہر اپنا اطمینان دکھاتے ہوئے اپیل نہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔ تقریبا پوری مسلمان کمیونٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے اور کوئی بھی صاحبِ حیثیت مسلمان اس سلسلے میں فعال نہیں ہے۔ حتیٰ کہ دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام نے بھی اس فیصلےکو قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کشمیر کی تقسیم اور اس کے مختلف حصوں پر با قاعدہ قبضے اور مشہور قومی و تاریخٰی اثار کے نام بدلنے کے فیصلوں کے بعد کون یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حق میں کوئی فرد یا ادارہ بول پائے گا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply