بکرا نامہ

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
کوئی تیس برس پرے کی بات ہے جب ہر دوسرے مرد مجاہد کا کالم اسی مصرعے سے شروع ہوتا تھا۔ الو کے ساتھ ہمارے معاشرے کا بڑا رومانٹک قسم کا تعلق تھا اور سماج میں رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے قضیے میں اسے گھیسٹ کر لایا اور براہِ راست موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا۔ الو کا پٹھا، الو کی دم اور الو کا کان جیسی تشبیہات و استعارے زباں زدِ عام تھے۔ مستنصر صاحب کی کتاب الو ہمارے بھائی ہیں کا عنوان نظر سے گزرا تو بڑے بھائی سے ڈانٹ کھانے اور اس دوران اسے معنی خیز نظروں سے گھورنے کا مزہ ہی الگ ہوگیا۔ لڑکپن کی حد میں قدم رکھا تو ریل کی کھڑکیوں سے نظر آتی دیواروں اور شام کے موقر اخباروں کی وساطت سے پتہ چلا کہ محض سالم الو ہی نہیں بلکہ اس کے جملہ سپئیر پارٹس مثل الو کا خون، جگر اور چربی بھی خاصے کی چیز ہیں اور ان سے صرف محبوب ہی نہیں بلکہ ایمان، دولت اور ہوش و حواس بھی قدموں میں گر سکتے ہیں۔
بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ الو راتوں کو جاگتے ہیں اور شہر سے باہر ویرانوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ مگر ہوا یوں کہ رفتہ رفتہ راتوں کو انسان جاگنے لگے اور شہر سے باہر، شہروں سے بھی بڑے شہر آباد ہو گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی دور افتادہ جگہ بھی کوئی بنجر ویرانہ نظر آیا تو یار لوگوں نے بلڈوزر پھیر، پلاٹنگ کر، ایئر پورٹ سے چار کلومیٹر اور موٹر وے سے چار منٹ کی ڈرائیو کا بورڈ لگا ہاؤسنگ سوسائٹی کھڑکا ڈالی۔ ایسے میں ذاتی الو کم سے کم ہوتے گئے اور ان کی جگہ صفاتی الو پر کرتے گئے جو ہر محکمے اور ہر ادارے میں اس کثرت سے چھا گئے کہ نکالے نہیں نکلتے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر انسان دوبارہ راتوں کی جگہ دن کو جاگنے کی روش اپنائیں تو شاید ان پہ قابو پایا جا سکے مگر کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہوتے تک۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہمیں تو کالم لکھنا تھا بکرے پر اور وہ بھی کالے بکرے پر۔ بکرا بڑا ہی معصوم جانور ہے۔ اتنا معصوم اتنا معصوم کہ اس نفسا نفسی بلکہ آپا دھاپی کے دور میں جب بڑے سے بڑا ذمہ دار شخص بھی نہیں تم، نہیں تم کی گردان سناتا پھرتا ہے، یہ بے چارا دنیا و مافیہا سے بے خبر تلخ سے تلخ سوال کا جواب کیا دیتا ہے: میں، میں، میں، میں۔ کہیں سپریم کورٹ میں اس کا کیس لگ گیا تو تیسری پیشی پر ہی اس کے خلاف فیصلہ آجانا ہے۔ کمیشن بنانے یا نئے بینچ کا انتظار کرنے کی بھی نوبت نہیں آنی۔
ویسے تو ہمارے ہاں کالے بکروں سے امتیازی سلوک کی بہت سی شکایات وصول ہوتی ہی رہتی ہیں۔ ایک شدید قسم کی ناانصافی پچھلے دنوں فیس بک پر ایک تصویر کی شکل میں سامنے آئی جس میں ایک زمیندار صاحب نے اپنے لاڈلے مرغے کی صحت یابی کی خوشی میں کالے بکرے کے خون سے ہولی کھیل ڈالی۔ اور وہ مرغا مشٹنڈوں کی طرح زمیندار کی گود میں بیٹھا اس بربرییت کا تماشا دیکھتا رہا جس کا وہ خود بھی ایک دن نشانہ بننے والا ہے۔ ویسے بھی ہماری خوش عقیدہ خواتین جب بنگالی بابوں کے پاس اپنی ساس، بہو، نند، بھابھی اور ہمسائے کی لڑکی کے اپنے شوہر، بھائی بیٹے، بھانجے یا بہنوئی پر جادو کروانے کی شکایت لے کر پہنچتی ہیں تو بابوں کا پہلا مطالبہ یہی ہوتا ہے بی بی اس کے لیے ایک کالے بکرے کا صدقہ دینا پڑے گا۔ کالے بکرے اپنی ازلی شرافت اور معصومیت کے باعث ان مسائل کو پاکستان کی غریب عوام کی طرح منشائے ایزدی سمجھ کر چپ کیے بیٹھے تھے لیکن ایک تازہ دم آفت سے یہ شریف مخلوق ایسے بلبلا اٹھی ہے جیسے ہماری عوام ناانصافی، گرانی، رشوت ستانی اور جرائم کو کمال برداشت سے سہتی لوڈ شیڈنگ کے ادنی سے مسئلے پر تڑپ اٹھتی ہے۔
قصہ محض اتنا ہوا کہ سات دسمبر کو پی آئی اے کا ایک طیارہ حویلیاں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ چونکہ ایسا حادثہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا اس لیے انتظامی ایوانوں میں بھونچال آگیا۔ وزیراعظم نے فوری ایکشن لیتے ہوئے خودمختار کمیشن بنا دیا جس نے شبانہ روز محنت کر کے اس حادثے کی اصل وجہ تلاش کرلی اور ایک انتہائی ضروری سٹیپ کو S.O.P کا حصہ بنا دیا گیا۔ پرسوں جب اس S.O.P کا اطلاق کیا گیا تو کچھ غیر سنجیدہ لوگوں نے اسے شغل میں لے لیا۔ حالانکہ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ پرسوں والا A.T.R طیارہ بغیر کسی حادثے کے اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ سب کے سامنے کی بات ہے کہ دونوں پروازوں میں سوائے کالے بکرے کے کچھ بھی تو مختلف نہیں تھا۔ حکام کی توجہ اور سنجیدگی، طیاروں کی منٹننس یا سروس کوالٹی۔
بہرحال جلنے والوں کا منہ کالا۔ اس فقیدالمثال تجربے کی کامیابی کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا ایک خصوصی اجلاس متوقع ہے جس میں تمام صوبائی اور وفاقی سطح کے اداروں میں سروسز کی بلاتعطل اور محفوظ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بکرا ڈویژن کے قیام کی منظوری دی جائے گی۔ جبکہ اس پراجیکٹ کو C.P.E.C کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے گا۔ اور کالے بکروں کی پہلی کھیپ کی سپلائی کا افتتاح کرنے کے لیے چینی وزیراعظم کو بلایا جائے گا۔ ان تمام امور کی نگرانی کے لیے وفاقی وزارت برائے بہبود و افزائش کالا بکرا کے قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ امید ہے کالے بکرے بھی اس عظیم مقصد کی قربانی کے لیے اپنی تکلیف کو بھلا کر تعاون کریں گے جیسے پاکستانی عوام جمہوریت کی بقا کے لیے ہر ستم خوشی خوشی سہہ رہی ہے۔ آخر میں ایک شعر آنجہانی طیارے کے لیے
یوں انجن کی خرابی سے تباہ نہ ہوتا
افسوس کہ پائلٹ کو بکرے کی نہ سوجھی

Facebook Comments

احسان الحق
خواب دیکھتے ہیں اور اسے حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی فصل گل کے منتظر و متمنی ہیں جسے اندیشئہ زوال نہ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply