کراچی – میرا بدنصیب شہر

"رشوت لیتے پکڑا گیا تھا ، رشوت دے کر چھوٹ گیا"

"مجھے یہ خوف نہیں کہ یہ ملک کیسے چلے گا؟ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے"

"یہاں چینی بھی مہنگی ، یہاں آٹا بھی مہنگا … پر میرے ملک کی دلہن پہنے دس دس لاکھ کا لہنگا"

یہ وہ چند جملے ہیں جو پاکستان (کراچی) میں دوران قیام ذہن میں کئی بار گونجتے رہے. ملک سے شدید محبت کے باوجود اس بار ایسی بہت سی ناہمواریاں سامنے آئی جنہیں دیکھ کر دل بجھ سا گیا۔ اس کی ایک یقینی وجہ شہر کراچی کی دگرگوں صورتحال ہے۔ یہ وہ بدنصیب شہر ہے جسے اپنوں اور غیروں سب نے مل کر لوٹا ہے، بے آبرو کیا ہے۔ جب سے شعور کی آنکھ کھولی، میں نے ہمیشہ ہی یہ سنا کہ "ملک بہت نازک دور سے گزر رہا ہے اور کراچی کے حالات جتنے آج خراب ہیں اتنے پہلے کبھی نہ تھے." میں نے ان روایتی جملوں کو ہنس کر نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا مگر یقین کیجیے اس بار اپنے شہر کو جس حالت میں دیکھا ہے وہ اذیت ناک ہے۔ یہ سچ ہے کہ حالیہ فوجی آپریشن سے امن و امان میں کسی درجے بہتری آئی ہے مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ یہ بہتری جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے، وہ دیرپا نہیں ہیں۔ اسلحہ آج بھی اسی طرح سپلائی ہورہا ہے، حکومتی کرپشن آج بھی رگ رگ میں پیوست ہے اور ایجنسیاں آج بھی لاشوں کا دھندہ کررہی ہیں۔ شہر قائد تباہ ہو رہا ہے، اسکی حالت اس وقت ایک ایسے یتیم کی سی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں آخری درجے میں ٹوٹ چکی ہیں، شہر کا ایک بڑا حصہ کچرا کنڈی بن چکا ہے اور لوٹ مار اپنی جگہ جاری ہے۔ گھر خریدنا اب حلال کمائی سے قریب قریب ناممکن ہے۔ لوگ ایک ہی گھر کو کئی پورشنز یعنی فلورز میں منقسم کرکے الگ الگ تین چار فیملیز کو بیچ رہے ہیں۔ یہ قابل اعتراض نہ ہو اگر گھر کا انفراسٹرکچر اس کا متحمل ہوسکے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ پانی سمیت کئی اور مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ بجلی کے ساتھ ساتھ کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ بھی چائنا کو دے دیا گیا ہے۔ ایک جانب کچھ خوش گمان اس امر سے خوش ہیں کہ اسی بہانے اب کچرے سے شہر صاف ہوسکے گا، دوسری جانب کچھ دور اندیش اس اندیشے میں ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند اب چائنا پاکستان پر قابض ہوتا جارہا ہے۔ رکشہ سکیموں سے روزگار میسر ضرور آیا ہے، عوام کو مناسب قیمت میں سواری بھی مل رہی ہے مگر اتنی بڑی تعداد میں رکشے دے دیئے گئے ہیں کہ اب چاروں طرف ان ہی کا بے ہنگم اژدہام ہے جن سے حادثات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

ایم کیو ایم اب تین دھڑوں میں بٹ چکی ہے یعنی ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی۔ اس سے عوام میں ایک اور کشاکش جاری ہے جو کسی وقت بھی تصادم کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف جو پہلی بار ایم کیو ایم کی مضبوط حریف بن کر ابھری تھی اور جسے مہاجروں کی ایک اچھی تعداد نے سراہنا شروع کردیا تھا، اب عمران خان کی مسلسل سیاسی دور نااندیشیوں کی وجہ سے قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔ شہر میں عوام کی تفریح کا بڑا بلکہ واحد ذریعہ ہوٹلنگ یعنی کھانا پینا ہے۔ مصطفیٰ کمال کے زیر انتظام جو عوامی پارک اور سہولیات بنائی گئی تھیں، ان میں سے اکثر یا تو تباہ ہوچکے یا ہورہے ہیں یا قبضہ گروپوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ کراچی کے رہائشی جنہیں اہل زبان کہا جاتا ہے ، آج زبان اردو سے نابلد ہوتے جارہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد سے بھی زیادہ کتب اب کراچی میں نہیں چھپتیں۔ مجھ سے کراچی ہی کے ایک صاحب علم نے زمانے قبل کہا تھا کہ "عظیم اردو ہمارے گھر کی لونڈی ہے، لہٰذا ہم نے اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈیوں والا ہی کیا ہے". آج محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ سچ کہتے تھے۔

عوامی شعور کا تو ملکی سطح پر یہ حال ہے کہ بس سٹاپ، ٹریفک سگنل وغیرہ موجود بھی ہو تو اس کی پاسداری کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ آپ بل جمع کرانے بینک جائیں یا روٹی نان لینے کیلئے کسی تندور جائیں، قطار لگانا یا اپنی باری کا انتظار کرنا جیسے ممنوع ہو۔ کوئی بھی آنے والا بڑی بے شرمی سے خود سے پہلے موجود لوگوں کو ان دیکھا کر کے یہ چاہتا ہے کہ بس اس کا کام سب سے پہلے ہوجائے۔ بہت سوں کیلئے یہ بے غیرتی معیوب نہیں بلکہ قابل فخر ہے۔ سوچتا ہوں کہ حکومتی ناانصافیوں کا رونا رونے والے اپنا ذاتی عمل کیوں نہیں دیکھتے؟ کیا حق ہے مجھے یا آپ کو ارباب اختیار کو کوسنے کا، جب ہم خود گندگی و ناہمواری پھیلا رہے ہیں؟ جس کا جتنا جبڑا ہے وہ اتنی ہی اس ملک و شہر کی بوٹیاں بھنبھوڑ رہا ہے۔ اس بار گاڑی چلانے کا موقع ملا۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ پارکڈ گاڑی کو ریورس کرنا چاہتے ہیں تو سڑک پر موجود ہر شخص اپنی آخری سانس تک یہی کوشش کرے گا کہ وہ آپ کو ایسا کرنے نہ دے اور خود اپنی گاڑی نکال لے۔

میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ لوگ اتنی غلاظت اور تھوک لاتے کہاں سے ہیں؟ جو ہر جگہ تھوکتے رہتے ہیں؟ کوئی پان اور گٹکا تھوک رہا ہے تو کوئی بس ایسے ہی شوقیہ تھوک رہا ہے۔ انہیں گھن نہیں آتی؟ پہلے لوگ بسوں کی کھڑکی سے منہ نکال کر تھوکتے نظر آتے تھے مگر اس بار میں نے کئی ایسی مثالیں مشاہدہ کیں جہاں اچھی بڑی بڑی گاڑیوں میں سے لوگ سڑک پر پیک تھوکتے ہوئے نظر آئے۔ ایک بار بے ساختہ اپنے بڑے بھائی سے میں نے کہا کہ آج کل تو شہر میں پیسے والے لوگ بھی ویسے ہی تھوکنے لگے ہیں۔ بھائی نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ یہ کہو کہ تھوکنے والوں کے پاس پیسہ آگیا ہے۔ کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے کو ملیں جو شاید وطن عزیز کے علاوہ کہیں اور نہ ہوں۔ میرا انگلینڈ کا ویزا بینک کارڈ پاکستان کے کسی بینک نے پیسہ نکالنے کیلئے قبول نہ کیا۔ میں ایک کے بعد ایک کوئی چھ سات بینکوں میں گیا اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ویزا کارڈ جو ساری دنیا کے بینکوں میں بلاتفریق چلتا ہے، وہ ہمارے بینکوں میں نہ چلے۔ جواب ملا کہ دراصل ہماری 'انٹرنیشنل سیٹلمنٹ' نہیں ہے۔ ایک اور حیرت انگیز انکشاف اس وقت ہوا جب میں پاؤنڈز کو روپوں میں بدلنے منی ایکسچینج گیا۔ معلوم ہوا کہ اگر کسی پاؤنڈ نوٹ پر پین کا ذرا سا بھی نشان ہوا تو وہ نوٹ قبول نہیں ہوگا یا کم داموں میں قبول ہوگا۔ نتیجہ یہ کہ کئی نوٹوں کو کم دام میں کھلوانا پڑا۔ کپڑے خریدتے وقت اچھی بڑی دکانوں پر دو بار ایسا ہوا کہ جب extra لارج سائز مانگا تو کہا کہ اس کے پیسے باقی سائزز سے زیادہ ہوں گے۔ وجہ دریافت کی تو بتایا کہ اس میں کپڑا زیادہ لگتا ہے۔ سبحان اللہ!

گو درج بالا باتیں تلخ ہیں مگر میری اس تحریر کا مقصد مایوسی کا پرچار نہیں بلکہ اپنے احساسات کو آپ سے بانٹنا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم غلط کو غلط کہیں مگر اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ جس غلط کو صحیح کرسکتے ہوں، اسے صحیح کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ چاہے وہ کردار کتنا ہی معمولی کیوں نہ محسوس ہو۔

دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے؟؟
آتے ہو۔۔ جلاتے ہو ۔۔چلے جاتے ہو

Advertisements
julia rana solicitors

====عظیم نامہ===

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply