مذہب

کچھ دن قبل یہ چھوٹی سی تحریر پڑھی تھی کسی جگہ۔ ساتھ کچھ اپنے خیالات ملائے اور آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیشہ چودہ پندرہ یا اٹھارہ سال کی ہندو لڑکی ہی کیوں اسلام سے متاثرہوتی ہے، اس مخصوص عمرمیں ہی ساری لڑکیاں اسلام کا مطالعہ کرکے اپنے مذہب سے اکتاہٹ کا اظہار کیوں کرتی ہیں؟ کبھی کسی بیس سالہ لڑکے، پچاس سالا عورت، یا پھر اسی سالہ بوڑھا پاکستان میں اسلام کی روشنی سے اپنے سینے کو منورکیوں نہیں کرتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ واقعی اس عمر کی بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کوزبردستی قبولِ اسلام کا لبادہ چڑھوا کر خود کو بچالیا جاتا ہے؟ اگر اس کچی عمر کی بچیوں کاقبولِ اسلام مذہب کو تقویت دیتا ہے تو اسی عمر کی مسلم بچیوں کا اسلام چھوڑدینا اسلام کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ ہر انسان کو شعور اور عقل کی عمرمیں آنے کے بعد اپنے مذہب کو دوبارہ سے پڑھنے سمجھنے اور اپنی مرضی سے کسی کوبھی قبول کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تب ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم کتنے پکے اور سچے مسلمان ہیں جب ہمیں علم ہوگا کہ ہمارا اپنا پیدا کیا ہوا جسے ہم کچے ذہن کے ساتھ نماز روزے کی تلقین کیا کرتے تھے، جوانی کی عمر میں آکر ہم سے وہ وہ سوال پوچھے گا کہ جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا تو یقین کیجیے اصل مذہبی ماں باپ تب پیدا ہوں گے۔ وہ مذہب اسلام کو پھر روایتی سوچ سے ہٹ کر پڑھیں گے بھی اور اپنی اولادوں کے جوان ہونے تک منطق اور دلائل سے اپنے مذہب کی اساس اور بنیاد بھی ڈھونڈیں گے۔
مزہ تب آئے گا جب ہر روز تیس تیس صفحے پڑھنے کے بعد ایک ہی صفحہ سوچ اور سمجھ کر پڑھا جائے گا کیوں کہ اس کی ضرورت پیدا ہو رہی ہوگی۔ یہ آنے والے وقت کا ایک نظارہ ہوگا۔ یہ نوشتہِ دیوار ہوگا کہ اب تقلید نہیں اجتہاد چلے گا۔ ہمیں اسلام کو عقلی اور منطقی بنیادوں پر سمجھنے کے لیے ہمت اور کوشش کرنی ہوگی۔ ہمارے ہر عمل کا اثر ہماری نسل پر ہے۔ ایسی صورت میں آپ اندازہ کیجیے کہ اگر ہم سوچ سمجھ اور شعور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دین کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو اس کے نتائج ہماری سوچ سے زیادہ بہتر اور تعمیری نکلیں گے۔

Facebook Comments

محمد آصف
یقیناٰ کچھ نہیں جانتا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply