اگر بیٹا پیدا نہ ہوا تو؟۔۔سعید چیمہ

اگر بیٹا پیدا نہ ہوا تو؟۔۔سعید چیمہ/ درویش کا تعلق ایک دیہات سے ہے۔ معلوم نہیں کیوں اور کب یہ رسم فرض ٹھہری کہ شادی کے ایک سال بعد ہر صورت بچہ پیدا ہونا چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ کسی کے ہاں بچہ نہ پیدا ہو تو پورے گاؤں میں چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ مسئلہ لڑکے میں ہے یا لڑکی میں۔ کوئی طبابت میں رطب اللسان ہوتاہے کہ یہ نسخہ آزماؤ تو کوئی مشورہ دیتا ہے کہ فلاں حکیم کی ادویات اس قدر مؤثر ہیں کہ وہ خود بھی ڈیڑھ درجن ارواح کو عالمِ زیریں میں لا چکے ہیں۔ اب اگر شادی کے پہلے سال بیٹا پیدا نہ ہو تو سوگواروں کی ایک جماعت اُمڈ آتی ہے کہ کوئی بات نہیں جو بیٹی پیدا ہو گئی، اگلی د فعہ انشاءاللہ بیٹا پیدا ہو گا۔ خطاکار کے گناہگار کانوں نے خود سنا کہ ایک ادھیڑ عمر عورت ایک نوجوان، جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی، کو کہہ رہی تھی کہ دل چھوٹا نہیں کرنا، اللہ بیٹا بھی دے گا۔

ہمارے ہاں یہ سوچ پروان چڑھائی جا چکی ہے کہ بیٹا پیدا ہو گا تو نسل جاری رہے گی وگرنہ نہیں۔ جو قبر میں چلا گیا اس کو پھر اس بات سے کیا غرض کہ نسل جاری رہے یانہ   رہے۔ نسل جاری رکھنے کی یہ سوچ اس قدر منفی اور قبیح ہے کہ کتنی ہی حوّا کی بیٹیوں کے گھر اجڑ گئے کہ وہ نسل جاری رکھنے کے لیے بیٹا پیدا نہ کر سکیں۔ اس زہریلی سوچ کا تریاق بھی کوئی نہیں کرتا۔ اسلام اس بارے میں کیا رہنمائی کرتا ہے، کوئی بھی نہیں بتاتا۔ جو بتا سکتے ہیں وہ غزوہ ہند بپا کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں(ہمارا اشارہ اوریا مقبول جان صاحب کی طرف نہیں ہے)۔ اگر بیٹے سے نسل جاری رکھنا کوئی ایسا ہی فطری یا افضل کام ہوتا تو رسالت مآبﷺ کے بیٹے ہوتے اور ان سے آپ کی نسل جاری رہتی۔ مگر رسالت مآبﷺ کے صرف ایک بیٹے سیدنا ابراہیم اٹھارہ ماہ کی عمر کو پہنچ سکے۔

اور بھی کتنے نام ہیں جن کی نسل جاری نہ رہ سکی بلکہ شروع بھی نہ ہو سکی۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری، امام ابنِ تیمیہ اور حضرت نظام الدین اولیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں لوگوں کی تربیت کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ آپ کے دنیا میں آنے کا مقصدنسل جاری رکھنا نہیں بلکہ آنے والی زندگی کے لیے امتحان دینا ہے۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ٹھہرے تو دائمی عیش وگرنہ دائمی ذلت۔ اس سلسلے میں منبر و محراب اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر ہمارے علما  اکرام فرقہ پرستی کی دلدل سے باہر نکلیں تو کسی اور طرف توجہ دیں۔ اساتذہ اکرام بھی کردار ادا کر سکتے ہیں مگر ان کا علم بھی اس قدر سطحی ہوتا ہے کہ یہ بار ان سے اٹھایا نہ جائے گا۔

یہاں اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بیٹوں کی خواہش آبادی میں بے پناہ اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اگر کسی کے ہاں پہلی دفعہ بیٹی پیدا ہو تو وہ دوسری دفعہ بیٹا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں کوشش کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ چھ سات بیٹیوں کی پیدائش اور بعض اوقات تو طلاق ہوتا ہے۔  ان لوگوں سے بس نعرے لگوا لیجیے کہ غلامی رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے۔ لیکن جو شریعت رسالت مآبﷺ لے کر آئے ہیں اس کے کلی احکامات کو یوں پسِ پشت ڈال دیا ہے گویا کہ وہ پاکستان کے کسی سیاستدان کے اقوالِ زریں ہوں۔ اور قرآن تو ویسے بھی صرف اونچی جگہوں پر رکھنے کے لیے نازل ہوا تھا۔ قیامت کے دن رسالت مآبﷺ کی شکایت دیکھیے”اور رسول اس دن شکایت کرے گا کہ اے رب میری اس قوم نے قرآن کو پسِ پست ڈال دیا تھا” ہم سب جانتے ہیں کہ   یہ شکایت ہم سب کے خلاف ہو گی مگر خود کوقرآن کے مطابق ڈھالنے سے ہم گریزاں ہیں۔

اس قوم کا خمیر نہ جانے کس مٹی سے اٹھا ہے جو طبیعت بدلنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتی۔ اب تو خیال آتا ہے کہ شاید سو سالہ تربیت بھی اس قوم کی طبیعت نہ بدل سکے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایک بادشاہ کہنے لگا کہ تربیت سے طبیعت بدلی جا سکتی ہے۔ جب کہ وزیر کہنے لگا کہ تربیت سے طبیعت نہیں بدلی جا سکتی۔ ہر کوئی بالآخر اپنی طبیعت کے مطابق فعل سر انجام دے گا۔ بادشاہ کو وزیر کے اس اختلاف پر شدید غصہ آیا اور اس نے تہیہ کیا کہ ہر صورت میں اپنے وزیر کو غلط ثابت کر کے رہوں گا۔ دربار برخاست ہونے کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ دو بلیوں کو پکڑ کر لایا جائے اور ان کی تربیت کی جائے کہ اگلے دو پاؤں سے انہوں نے مشعل کو تھام کر رکھنا ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد بلیوں نے سیکھ لیا کہ کیسے اگلے پاؤں سے مشعل کو تھامتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بادشاہ نے دوبارہ دربار مقرر کیا اور  بلیوں کو مشعل پکڑا کر تخت کے پاس کھڑا کر دیا کہ آج اپنے وزیر کو غلط ثابت کر دوں گا۔ ادھر وزیر بھی بلیوں کی تربیت سے بے خبر نہ تھا۔ دربار میں آتے وقت وہ ایک تھیلے  میں چوہا پکڑ لایا۔ جب وزیر تخت کے پاس پہنچا تو بادشاہ نے کہا کہ تم تو کہتے تھے تربیت سے طبیعت نہیں بدلی جا سکتی، ذرا   دیکھو تو ہم نے بلیوں کو تربیت کے ذریعے مشعل پکڑا دی ہے۔ وزیر نے بادشاہ کی بات کا جواب دینے کے بجائے تھیلے سے چوہا نکالا اور بلیوں کے سامنے چھوڑ دیا۔ بلیوں نے مشعلیں گرائیں اور چوہے کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اور وزیر کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply