مُک گیا تیرا شو نیازی۔۔ارشد غزالی

حکومت خواہ مسلم لیگ نون کی ہو ،پیپلز پارٹی کی یا تحریک انصاف کی ،ہر دور میں اپوزیشن کی طرف سے عوامی اجتماعات اور اسمبلی میں سیاسی نعرے بازی کا کلچر موجود رہا ہے, پچھلی حکومت کے دور میں تحریک انصاف کا مقبول ترین نعرہ “گو نواز گو” تھا جو باقاعدہ ٹرینڈ بن گیا تھا, یہ نعرہ موجودہ وزیراعظم عمران خان دھرنوں کے دوران بھی لگاتے رہے ہیں ،بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے تو اس نعرے پر نغمے تک تخلیق کروائے گئے اب جب کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اپوزیشن خاص کر نون لیگ کی جانب سے “مک گیا تیرا شو نیازی, گو نیازی گو نیازی” کے نعرے کی  گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔

کیا اس نعرے میں کوئی حقیقت ہے, کیا عمران خان اپنے سارے پتے کھیل چکے ہیں, کیا عمران خان کے حکومتی شو کا پردہ گرنے کو ہے؟کیا مقتدر حلقوں کی طرف سے مائنس عمران خان فارمولا یا تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو ڈیل یا ڈھیل کے لئے “سپیس” فراہم کی جارہی ہے ان سوالات کا جواب اتنا اسان نہیں ہے اور ابھی کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہوگا اگرچہ کچھ مخصوص صحافیوں اور اپوزیشن کا پورا زور اسی بات پر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جانے والی ہے اور نواز شریف جلد آکر ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں گے مگر زمینی حقائق اور اپوزیشن کے تند و تیز بیانات اس سے کچھ مختلف منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کے پاس عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے دو ہی آپشن ہیں

پہلا اپشن یہ ہے کہ حکومتی ارکان یا اتحادی جماعتوں کو توڑ کر تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور عمران خان کو ہٹا دیا جائے اور

دوسرا آپشن پیپلز پارٹی اور نون لیگ سمیت ساری اپوزیشن متحد ہوکر استعفے دے کر حکومت کو نئے انتخابات کی طرف جانے پر مجبور کردے مگر ان دونوں میں سے کوئی آپشن بھی فیصلہ سازوں کی مرضی اور منشاء کے بناء کامیاب ہونا ممکن نہیں ،تو کیا مقتدرحلقے حکومت کو گھر بھیجنے کے حق میں ہیں؟ اس کا مختصر جواب ہے “نہیں”۔

اسٹیبلشمنٹ اس موقعے پر بدانتظامی, نااہلی غلط سیاسی اور اقتصادی فیصلوں اور مہنگائی کے بوجھ سے زمین میں دھنستی اور عوام الناس میں مقبولیت کھوتی ہوئی تحریک انصاف کے وزیراعظم کو ہٹا کر سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم نہیں کرے گی کیونکہ عمران خان حکومت چلانے کے لئے ناتجربہ کار سہی مگر انھیں مدت پوری کروائے بناء اگر اپوزیشن میں دھکیلا گیا تو وہ عوام میں جا کر سب کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں، کیونکہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے بہت سے رازوں اور حقیقتوں کے امین بھی بن چکے ہیں، خاص کر جب کہ نہ  تو ان کے ملکی و غیر ملکی کوئی بزنس کے مفادات ہیں اور نہ  ہی ان کے کوئی موروثی سیاست کے وارث ہیں، جن کے لئے انھیں کمپرومائز کرنا پڑے۔

دوسری اہم وجہ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی جس کا ثبوت ماضی میں استعفوں اور دیگر معاملات میں اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی کی صورت میں نظر آتا رہا ہے, اس کے علاوہ اتحادی پارٹیاں بھی حکومت کی سرسبز چرا گاہ چھوڑ کر بے یقینی کے صحرا  میں بھٹکنے کی غلطی نہیں کریں گی، اور ان سب سے بڑھ کر اس وقت نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی انتخابات کی تیاری ہے نہ  ہی انتخابات کا ماحول اور نہ  ہی منتخب اراکین اسمبلی انتخابات اور انتخابی مہم کے کروڑوں روپے پانچ سال کے بجائے ساڑھے تین سال کی مدت کے بعد ہی دوبارہ سے خرچ کرنے پر متفق ہوں گے ۔

مزید اس وقت کرونا وباء کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں, عالمی فوڈ چین کی سپلائی میں تعطل کی بناء پر مہنگائی کی لہر عروج پر ہے جب کہ کرونا کا نیا ویری اینٹ اومیکرون بھی سر اٹھا رہا ہے نیز ریکارڈ اندرونی وبیرونی قرضے, ڈالر کی اونچی اڑان اور کئی دیگر وجوہات کی بناء پر اس وقت کسی بھی پارٹی کے لئے حکومت سنبھالنا سراسر خسارے کا سودا ہوگا اس لئے اپوزیشن خاص کر نون لیگی رہنماؤں کے سلگتے ہوئے بیانات اور دباؤ بڑھانے کا مقصد بظاہر صرف نواز شریف کی وطن واپسی کے راستے کی تلاش, اپنے خلاف کیسز کے خاتمے کی کوشش اور اگلے انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں حصہ داری کے سِوا کچھ نظر نہیں ارہا۔

وزیر اعظم کی ایک بڑی غلطی کمزور حکومت کے ہوتے ہوئے اپوزیشن سےچھیڑ چھاڑ تھی, بجائے ساڑھے تین سال اپوزیشن کو مطعون کرتے گزارتے انھیں چاہیے تھا کہ جہاں اسلامو فوبیا, ماحولیات, ڈیمز, ایکسپورٹس اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے جیسے طویل مدتی اقدامات کر رہے تھے وہیں عوام کو بنیادی اشیائے ضروریات میں سبسڈی دے کر مہنگائی کا اثر عوام تک نہ پہنچنے دیتے, پی آئی اے, اسٹیل مل اور ریلوے سمیت دیگر اداروں کو منافع بخش اور فعال بنا کر حکومت پر اخراجات کا بوجھ کم کرتے, زراعت, آئی ٹی, معدنیات, پراپرٹی, ٹیکس اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات متعارف کروا کے حکومتی آمدنی میں اضافے کے ساتھ مقامی تجارتی اور پیداواری صلاحیت کو بڑھاتے جس سے درامدات کا بوجھ کم ہوتا,شرح نمو بہتر ہوتی اور ڈالر کا ریٹ بھی کنٹرول سے باہر نہ  ہوتا مگر حکومت اور وزیراعظم صاحب کی ساری توجہ اپوزیشن کی کرپشن اور ماضی پر رہی اور وہ تبدیلی کے نعروں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک نہ  پہنچا سکے۔

اس وقت بظاہر عمران خان کی تمام تر امیدیں اپوزیشن کے کیسوں, الیکٹرانک ووٹنگ مشین, اور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق, نئے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتیوں اور آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنے نیز معیشت کو بہتر کرنے سے جڑی ہیں اور وہ جارحانہ سیاست اور اپوزیشن کے خلاف مقدمات میں شدت لا کر بقول شہباز شریف اپوزیشن کو دیوار میں چن دینے کا بھی سوچ رہے ہونگے جس کا اظہار حکومتی اقدامات اور اعلانات سے نظر آرہا ہے مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔

پنجاب جیسے صوبے کو کمزور وزیراعلیٰ  کے حوالے کرنا اور خیبر پختونخوا  میں پرویز خٹک کو ہٹانا جو اقرباء پروری سے ہٹ کر بہرحال جوڑ توڑ کے ماہر تھے خان صاحب کے وہ فیصلے ہیں جنھوں نے تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کا ثبوت ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں شکست اور تحریک انصاف کے کمزور ہوتے چلے جانے کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ساتھ میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے ساتھیوں کی دوری, بد انتظامی, نااہلیت, اقرباء پروری, غلط اقتصادی, معاشی و سیاسی فیصلوں نے تحریک انصاف کو نہ  صرف عوام بلکہ مقتدر حلقوں کی نظر میں بھی غیر مقبول کر دیا ہے اور حکومت ہر چیز کا ملبہ صرف پچھلی حکومتوں پر ڈال کر خود کو دودھ سے دُھلا ثابت نہیں کر سکتی۔

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت گورنر اور وزیر اعلیٰ  ہاؤسز کو یونیورسٹیاں بنائے یا نہ  بنائے، مگر ان کے شاہانہ اخراجات کم کروائے, وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج, بیوروکریٹس اور اعلیٰ سرکاری ملازمین اور اداروں کی بے حساب مراعات جو ملک کو کھربوں روپے کا چونا لگا رہی ہیں انھیں کم کر کے اور عوام کو براہ راست سبسڈی دے کر مہنگائی کا بوجھ کم کرے, ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم تمباکو سے لے کر مشروبات اور فارما تک ہر سیکٹر اور شعبے میں لاگو کرے, ڈالر اور اشیائے ضرورت کی افغانستان اسمگلنگ کو کنٹرول کرے, دالوں اور کھانے کے تیل سمیت بے شمار اشیاء جس میں ہمارا ملک بہت کم وقت میں خود کفیل ہوکر کئی ارب ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ بچا سکتا ہے اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے, انڈیا آئی ٹی کے شعبے میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہا ہے حکومت اس شعبے پر بھرپور توجہ دے کر اور پے پال کو پاکستان لاکر اس انڈسٹری سے فائدہ اٹھائے جو پہلے ہی بہت زیادہ نمو کر رہی ہے, ٹیکسٹائل کے شعبے کو اربوں روپے کی سبسڈی دے کر صرف اعشارئیے دکھانے کے بجائے تمام مقامی صنعتوں کو سبسڈی اور گیس فراہم کر کے یکساں مواقع فراہم کرے, گاڑیوں اور پُر تعیش اشیاء سمیت غیر ضروری تمام تر درامدات پر مستقل پابندی عائد کر کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ ہرجگہ انتظامی طور پر نااہل لوگوں کو فارغ کرے جو نہ  تو مقامی مارکیٹوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں کنٹرول کر پائے نہ  ذخیرہ اندوزوں کو مارکیٹ پر اثر انداز ہونے سے روک پائے اور نہ  ہی اپنے شعبوں اور وزارتوں میں کوئی قابل ذکر کام کر سکے نیز احتساب کے نام پر اپوزیشن کے خلاف شکنجہ کسنے کے بجائے معاملات کو آگے بڑھاتے ہوئے مل کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین, اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت عدالتی و دیگر اصلاحات کے لئے کوشش کرے تاکہ وطن عزیر اقتصادی, معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نکل کر مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عوام بھی سکھ کا سانس لے ورنہ بعید نہیں کہ طاقت کی راہداریوں میں تحریک انصاف بہت جلد قصہ پارینہ بن جائے گی۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply