• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تقاضائے عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔سانول عباسی

تقاضائے عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔سانول عباسی

کل سے سوشل میڈیا پہ ایک جملہ بار بار پڑھنے کو مل رہا ہے کہ ہم عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم میں شدت پسند ہیں مگر دوسرے ہی جملے میں اس زبانی کلامی عاشقی سے لاتعلقی کا اظہار بڑی شد ومد سے دیکھنے کو ملتا ہے شخصیت و کردار کے حوالوں سے ہم جس قدر پستی و تنزلی کا شکار ہیں اسی بےحسی و ڈھٹائی سے عاشقی کا دعوی کرتے ہیں۔
ہم جانتے ہی نہیں کہ عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ اس زبانی جمع خرچ میں ہم مخالفین کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ زبان درازی کر سکیں ہم سمجھتے ہیں یہ زبانی جمع خرچ ہی عشق کی دلیل ہے۔
چُوری کھانے والے مجنوں عشق کی خوشبو سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔

نہ جانے کتنی والز پہ عاشقی کا عجیب نخوت بھرا انداز دیکھنے کو ملا میں نے یہ کر دیا اتنے مار دیے اتنے انفرینڈ کر دیے میرے کاروبار میں اتنے کا فائدہ تھا میرے اتنا قریب تھے مگر ا س معاملے میں قربت تو نہیں دیکھی جاتی لفظوں کے بیوپاری عجیب عجیب انداز سے اپنے لفظوں کو مارکیٹ میں پھینک رہے تھے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ان کے الفاظ سادہ دلوں پہ کیا بجلی گرائیں گے وہ لوگ جو ان کے لفظوں کو سنتے و پڑھتے ہیں ان کی شخصیت میں کیا بھونچال آئیں گے۔

ایک بات جو بہت زیادہ سامنے آئی وہ یہ کہ ہمارے سماج میں بڑھتی عصبیت کے ذمہ دار یہ سوشل میڈیا دانشور ہیں جو معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی بجائے اپنا منجن بیچنے کے چکر میں مگن نظر آتے ہیں انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہمارا سماج جو شدت پسندی کی دلدل میں دن بدن دھنستا چلا جا رہا ہے اس مزید دھنسنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں کتنوں کو سمجھانے کی کوشش کی جن کے متعلق خیال تھا کہ سلجھے ہوئے مدبر لوگ ہیں مگر عجیب طرح کا مایوس کن رویہ دیکھنے کو ملا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کمی بیشی رب العالمین معاف فرمائے
“مومن طعن و تشنیع کرنے والا نہیں ہوتا”
ایک اور فرمان ہے کمی بیشی رب العالمین معاف فرمائے
“مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے”

عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو مومن ہوتے ہیں اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت تو بردباری معاملہ فہمی حکمت و فراست کا منبع ہونی چاہیے یہ لاابالی جلد باز و طعن و تشنیع کرنے والے تو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے۔

خدارا سوچئے ہم بحیثیت مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا عَلم اٹھائے ہوئے ہیں ہماری شخصیت ہمارا کردار مخالفین کو جواز فراہم نہ  کرے کہ وہ آقائے نامدار محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پہ انگلی اٹھائیں جبکہ اس قسم کی عاشقی جو شخصیت و کردار میں کھوکھلی ہو خالی خولی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ،مخالفین کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پہ انگلی اٹھانے کے لئے جواز فراہم کرتی ہے۔ اور المیہ یہ کہ آخری حد تک بھی ہم اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہم انگلی اٹھانے والوں کی انگلی کاٹنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں لیکن اپنی شخصیت و کردار کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و کردار میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے اپنے کردار میں وہ خصائص پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو مومن کی میراث ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا جزو لازم ہے مگر یہ سب ہمارے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور غدر مچانا آسان معلوم ہوتا ہے۔

سورةالانعام آیت نمبر 108 میں رب العالمین فرماتے ہیں کمی بیشی رب العالمین معاف فرمائے
“جو لوگ خدا کے سوا جس کو بھی پوجتے ہیں انہیں برا بھلا مت کہو وگرنہ یہ لوگ بدلے میں حقیقی خدا پہ زبان دراز کریں گے”
اور ایک اور جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کمی بیشی رب العالمین معاف فرمائے
“اپنی والدہ کو گالی مت دو تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ کون بدبخت ایسا کرتا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی کی  والدہ کو گالی دینے میں پہل کرتے ہو تو جواب میں وہ تمہیں گالی دیتا ہے گویا تم نے اس کے توسط سے خود اپنی  والدہ کو گالیاں دی ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ مومن مسلمان ہونے کا مطلب ایک ذمہ دار انسان ہونا ہے اور ایک ذمہ دار انسان مدبرانہ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے
مختلف الخیال ہونا کوئی بُری بات نہیں بلکہ اختلاف تو نعمت ہے زندگی کی دلیل ہے خدا نے اپنے شاہکار کو سوچنے سمجھنے غور و فکر کرنے والا بنایا ہے تو اختلاف ہونا عام سی بات ہے بلکہ اس اختلاف کی بدولت علم و حکمت کے نئے در وا ہوتے ہیں نئی سے نئی کائناتی حقیقتوں کو آشکار کرنے میں مدد ملتی ہے۔
خدارا سوچیے ہماری آپس کا سماجی و سیاسی اختلاف ذاتی عناد و دشمنی کی شکل اختیار نہ  کرے کہ انسانی اقدار و اخلاقیات کا ہی جنازہ نکل جائے۔
عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار اگر شخصیت و کردار کی پختگی کی صورت میں سامنے نہیں آتا تو یہ عشق نہیں ڈراما کہلائے گا اور ہم اپنے اس ڈرامے سے کس کو دھوکہ دینے کی کوشش میں ہیں کیونکہ خدا تو سب جانتا ہے وہ تو ہماری شخصیت و کرادر کا شاہد ہے اور ہماری آخرت کا فیصلہ بھی ہمارے ڈراموں پہ نہیں بلکہ ہماری شخصیت و کرادر کو سامنے رکھتے ہوئے رب العالمین کی رحمت سے ہو گا۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply