دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ضرور ہے مگر پاکستان اس عالمی مسئلے کا شدید مضروب ہے۔ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بنے اور نقصان اٹھایا بلکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کئی ایک کالعدم تنظیموں نے باہم غیر اعلانیہ اتحاد کیا ہوا ہے۔وہ ساری تنظیمیں جو فکری اعتبار سے تکفیر کو جائز سمجھتی ہیں، وہ ساری تنظیمیں جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان ،جماعت الاحراراور لشکر جھنگوی کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی جارحانہ کارروائیوں کے بعد کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش کو اپنا فکری قلعہ سمجھتی ہیں۔کوئٹہ گزشتہ کئی سالوں سے لشکر جھنگوی،کالعدم تحریک طالبان،علیحدگی پسند باغیوں اور گاہے داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں ہے۔صرف کوئٹہ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر اٹھی اور سماج کو تہہ و بالا کر دیا۔
سوات سے کوئٹہ اور کراچی سے خیبر تک،دہشت گردوں نے پورے پاکستان کو نشانے پر رکھا ہوا تھا۔دنیا کے کسی دوسرے سماج نے دہشت گردی کے خلاف اتنی قربانیاں نہیں دی ہیں جتنی پاکستانی سماج نے دی ہیں۔امریکی سر پرستی میں افغانستان میں سر گرم نیٹو سمیت کسی دوسرے ملک کی فوج نےویسی قربانیاں نہیں دیں جو پاکستانی فوج نے دی ہیں۔پاکستان میں سرگرم دہشت گرد جماعتیں جو کالعدم قرار دی جا چکی ہیں،ان کی کارروائیوں کی جہات مختلف ہیں۔آپریشن ضرب عضب کے بعد کالعدم تحریک طالبان سمیت دہشت گردوںکی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔لیکن ان کا فکری نظام اور اہداف واضح ہیں۔جب بھی اور جہاں کہیں بھی انھیں موقع ملتا ہے وہ کارروائی کر گزرتے ہیں۔پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی ایک تین سالہ پرانی رپورٹ کے مطابق 2015 کی نسبت 2016 میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں 28 فیصد کمی آئی ۔جبکہ 2016 میں پاکستان میں کل 441 دہشت گرد حملوں میں 908 افرادجاں بحق ہوئے۔جبکہ اسی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت دہشت گردی کے مجموعی واقعات میں 29فیصدکمی جبکہ بلوچستان میں 23فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہر سال بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔لیکن کوئٹہ میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ہزارہ برادری کو لشکر جھنگوی اور اس کی فکری ہم نوا دہشت گرد تنظیموں نے اس قدر ٹارگٹ کیا کہ اب ہزارہ کمیونٹی کو سبزی منڈی تک آنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔تادمِ تحریر کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی،نہ ہی سیکیورٹی اداروں نے کسی ایسے امکان کا اظہار کیا جس سے اشارہ ملے کہ دہشت گروں کا ہدف ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تھے۔ماضی میں علی الاعلان دہشت گردوں نے ہزارہ کمیونٹی کے افراد، ان کی ملکیتی مارکیٹوں اور گھروں کو نشانہ بنایا۔کوئٹہ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت ہے مگر اس شہر بے اماں میں، افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردوں کو مالی و تکنیکی سپورٹ ضرور فراہم کرتی ہیں۔ عمو می طور پر بلوچ علیحدگی پسندوں کاٹارگٹ ہمیشہ سیکیورٹی فورسز اور پنجابی مزدورر ہے ہیں، جبکہ کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم جماعت الاحرار،کالعدم تحریک طالبان اپنے ہدف میں ہزارہ برادری اور سیکیورٹی فورسز سمیت عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم ایک ایسے مرحلے پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مزید کیا کر سکتے ہیں؟ پلوامہ حملے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے پہلے سے موجود کالعدم تنظیموں میں مزید دو چار تنظیمیں شامل کی ہیں۔
اگست 2016 میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے ،کے سلسلے میں بنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت انسدادِ دہشت گردی کے قانون پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے دہشت گردوں اور اُن کی تنظیموں پر فوری طور پر پابندی عائد کرے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی پر مبنی پروپیگنڈا روکنے میں ناکام رہی ہے۔نیز انسدادِ دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دیا جائے اور اس کے اہداف واضح ہوں۔کمیشن نے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی ناقص کارکردگی پربھی تنقید کی تھی اور تجویز دی تھی کہ نیکٹا کو فعال بنایا جائے۔تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تجاویز میں یہ بھی کہا تھاکہ حکومت شدت پسند تنظیموں کو عوامی اجتماعات کرنے سے روکے اور کالعدم جماعتوں کی فہرست کو وزراتِ داخلہ کی ویب سائٹ، نیکٹا اور تمام صوبوں کو جاری کرے۔لیکن بد قسمتی سے حکومت نے ان تجاویزپر عمل نہیں کیا بلکہ الٹا اس وقت کے وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان نے اس رپورٹ پر یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ کمیشن نے ان کی وزارت کا موقف ہی نہیں لیا۔
عالمی سطح پر بنتے بگڑتے نئے معاشی و عسکری اتحاد براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔سی پیک ،مشرق وسطیٰ کی بدلتی عسکری و معاشی حرکیات،افغان طالبان سے امریکہ کے مذاکرات، ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دینا،معمولی واقعات نہیں ہیں۔افغانستان نے ہمیشہ بلوچ علیحد گی پسندوں اور دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ بھارت کا وسیع نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہے۔ایسے میں پاکستان پر معاشی دبائو کے ساتھ ساتھ، عالمی شیطانی قوتیں کالعدم تنظیموں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گی۔ یہ سوال غیر اہم ہو جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا ہدف ہزارہ کمیونٹی کے افراد تھے یا عام شہری؟دہشت گردوں کا ہدف کوئی شیعہ تھا یا سنی؟سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ہدف پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے اور پاکستانی عوام۔ہاں یہ ضرور ہے کہ تکفیری ٹولہ اپنے اہداف میں شیعہ کمیونٹی کو اولیت دیتا ہے۔ نقصان مگر پاکستان کا ہے۔یہاں تک کہ ہزارہ کمونٹی کو ایک علاقے تک محدود کر دیا گیا۔پاکستان کے پاس آپشن کیا ہے؟ دہشت گردوں،اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں۔دہشت گردوں کی تمام تر تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں، لیکن وہ اپنی بقا کی علامت اور طاقت کے اظہار کے لیے ایسے وار کرتی رہیں گی۔اداروں کو معلوم ہے کہ داعش،القاعدہ،اور تکفیری فتووں کے ذریعے قتل و غارت گری کی حوصلہ افزائی کون کرتا ہے؟ اور معصوم انسانوں کا قتل عام کر کے جنت نشیں بننے کی تربیت دینے والے کون ہیں؟کوئٹہ کا معاملہ زیادہ حساس ہے کہ یہاں افغان پٹی کے راستے کئی عالمی قوتیں امن و امان بگاڑنے میں اپنی پوری قوت صرف کریں گی۔پاکستان انشا اللہ اس مرحلے میں بھی سرخرو ہو گا۔یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری پالیسی میں مزید جارحیت لانا ہو گی۔ کالعدم تنظیموں کے سربراہان،اور سہولت کاروں کو پس ِ دیوارِ زنداں ڈالنا ہو گا۔ان کی وجہ سے ریاست کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا حساب لینا ہو گا۔کیا کوئٹہ کے امن و امان کی تباہی میں رمضان مینگل نامی دہشت گرد کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟کیا اسلام آباد کے ایک مدرسے کی طالبات نے اپنے ویڈیو پیغام میں داعش کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی تھی؟شیفتہ یاد آتے ہیں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں