قصّہ ہمارے اعتکاف کا۔۔سیّد محمد علی

تو جناب اعتکاف کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارا دل داتا صاحب پر اعتکاف کرنے کا تھا، وہاں سے میرا آفس دو کلومیٹر کے فاصلے پر سگیاں میں تھا، لیکن حالات کچھ اس طرح وقوع پذیر ہوئے کہ ہم نے جو ڈیمانڈز موبی سرو (Mobiserve vendor) مینجمنٹ سے کیں، وہ انہوں نے درخو اعتناء نہ سمجھیں۔ ان کو میرا جارحانہ انداز(aggressive way of working) پسند نہ آیا اور ہماری نوکری چار دن میں ہی تیل ہوگئی ۔
وہ بہادر شاہ ظفر کیا خوب فرما گئے ہیں۔

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

یعنی کہ ابھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے نہ تھے کہ علیحدگی کی نوبت آ گئی۔
خیر یہ تو رب العالمین کے فیصلے ہیں کہ کس کو کہاں رزق ملنا ہے اور کتنے دن،خیر ہم پکے رہے کہ نوکری گئی تو گئی ، اعتکاف ہم نے داتا کی نگری میں ہی کرنا ہے۔
لیکن ہمارے ابا حضور جو کہ ہمارے گھر کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہیں ، انہیں ہمارا یہ فیصلہ ایک آنکھ نہ بھایا اور ہمیں اٹک میں اعتکاف کرنے کے آرڈر جاری ہوگئے۔پھر تھوڑی نرمی یہ آئی کہ بیوی اور بچوں سے صلاح مشورے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔

سید ابوبکر علی اور سیدہ حفصہ علی نے تو اٹک کا نام سنتے ہی، اٹک کے حق میں ہی فیصلہ دیا جبکہ بے غم صاحبہ نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کیا اور کہا چاہے آپ لاہور چلے جائیں لیکن بہتری اٹک میں ہے
یوں ہمیں اس جمہوری عمل میں عمران خان کی طرح اپنی ضد چھوڑنی اور اٹک کوچ کرنا پڑا۔
اب اگلا مسئلہ پھر اجتماعی اور انفرادی اعتکاف کا تھا۔اجتماعی اعتکاف کو فوقیت دی کیونکہ سیکھنے کو زیادہ ملتا۔اٹک کی مشہور مسجد ، مسجدِ حنفیہ کا انتخاب کیا ابا جی نے اور ہم نے سر تسلیم خم کیا ۔یہاں پہنچے تو یہاں کی مینجمنٹ نے ایک لمبا چوڑا قوائد و ضوابط کا دیباچہ تھما دیا ۔جس میں پہلی شرط ہی موبائل استعمال نہ کرنا تھی
اب ہم ٹھہرے ٹیلی کام (Telecommunication) کے بندے، روٹی ملے نہ ملے، موبائل 24 گھنٹے چارجڈ اور پاس ضرور ہونا چاہیے ۔
خیر اللہ  اللہ کر کے ایک ممبر سے گزارش کی، انہوں نے کمال دریا دلی سے اجازت مرحمت فرمائی ، سیکٹری جنرل صاحب کو بھی مطلع فرمایا، انہوں نے بھی شفقت کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ مسئلہ ہی کوئی نہیں۔۔
ہم مطمئن ہو گئے، دیباچے پر شانِ بے نیازی سے دستخط کر دیے ۔

سرپرست اعلیٰ اختر شاہ صاحب جو نہایت ہی جی دار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں نے حلف لیا قوائد و ضوابط پر عملداری کا، تو ہم نے جان بوجھ کر حلف نہیں لیا کیونکہ ہم تو عمل کرنے والے تھے نہیں۔اور مغرب کے بعد یہ بات ان کے بھی گوش گزار کر دی۔ وہ ٹھہرے اصول پسند آدمی، کہنے لگے کہ آپ کو پہلے اس صورت حال سے مطلع کرنا چاہیے تھا۔ ہر چند کہ انہیں ہر اس بندے کا بتایا جس نے مجھے دلاسہ اور تسلی دی تھی، لیکن وہ اٹل رہے کہ ہمیں موبائل فون کی اجازت نہیں ہوگی۔
بہت منت سماجت کے بعد آخر کار اتنی اجازت ملی کہ خط و کتابت (Texting) کر سکتا ہوں لیکن وہ بھی مختصر البتہ کال سننے کی اجازت نہیں۔
ہماری قوم کو تو آپ جانتے ہی ہیں ۔۔۔ جنہوں نے حلف اٹھائے تھے، وہ موبائل فونز کا آزادانہ استعمال کر رہے تھے اور ہم جو قانوناً پابند ہی نہ تھے، احتیاط کر رہے تھے۔ خود سرپرست اعلیٰ صاحب نے ایسی کئی خلاف ورزیاں (violations) پکڑی۔
ہم نے بھی ان کے گوش گزار کئی واقعات کیے تو ہمیں بھی کال کی اجازت مل گئی ۔
خود سرپرست اعلیٰ صاحب نے محفل میں ہماری مجبوری کا بتا کر، نام لے کر ہمیں مبرا کر دیا ہر قسم کے حلف سے۔

تحریر بہت لمبی ہو گئی ہے اس لیے مختصر کرتا ہوں اور فوائد عرض کرتا ہوں
1۔ تین سیشنز قرآن و حدیث کے ہوتے تھے
ا) فجر کے بعد۔ قاری الطاف صاحب نائب خطیب و امام و مسجد ھذا
ب) ساڑھے گیارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک. قاری نیاز حسین صاحب چورہ شریف
ج) ڈھائی سے ساڑھے تین بجے تک۔ مہمان خطباء
جس سے کافی مسائل میں راہنمائی ملی۔ خاص طور پر قاری الطاف صاحب اور نیاز صاحب کا خطاب بہت جاندار ہوتا تھا۔ اور انہوں نے روزمرہ زندگی کے ایسے بہت سے امور پر گفتگو کی اور ہماری راہنمائی فرمائی جو وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

2. کھانے پینے کا نظام بہت مربوط تھا، اللّٰہ پاک سب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے بھی خدمت کی، حصہ ڈالا یا مینجمنٹ کی۔

3۔ طاق راتوں میں صلوہ التسبیح کا انتظام تھا۔

4۔ نفری کم تھی (55) لوگ سنت اعتکاف بیٹھے تھے تو بھاگم دوڑ  کم تھی۔

کچھ گلہ خوردِ حمد سے:
1۔ شرارتی بچوں کی سرکوبی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس ٹولے نے پورے دس دن ناک میں دم رکھا

2۔ تمام سیشنز اتنے بیک ٹو بیک تھے کہ ان کی وجہ سے تھکن ہو جاتی تھی اور کیونکہ شرکت لازمی تھی قوائد و ضوابط کی رو سے تو انہیں چھوڑنا (skip ) بھی ممکن نہیں تھا چاہے آپ سیشن میں سوتے رہیں یا اونگھتے رہیں۔

3۔ کھانا ضائع ہوتا تھا اور اس کے efficiently use کا کوئی انتظام وضع کار نہیں تھا۔ (صرف میں ہی تھا جس نے دس میں سے آٹھ دن اپنی پلیٹ مکمل طور پر ختم کی)

4۔پردے کا انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے قضاء نمازوں کی ادائیگی اور دوسری انفرادی طور پر عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا۔

تجاویز (اگلے اعتکاف کے لیے):

1۔ سیشنز آپشنل کیے جائیں، معتکف کا سونا بھی عبادت ہے، اس لیے اسے مدینہ پاک اور مکہ پاک کی طرح مکمل آزادی دی جائے۔

2۔ شرارتی بچوں کے والدین کو بلا کر اس مسئلہ کا فوری سدباب کیا جائے۔

3۔ اعتکاف والوں کے لیے پردے کا انتظام کیا جائے تاکہ معتکف چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے

4۔جس طرح اس دفعہ 2000 فیس لی جائے، اسی طرح اگلی دفعہ بھی 5000 لیے جائیں تاکہ معتکفین مفتے کا احساس لے کر نا آئیں بلکہ ان میں احساس ذمہ داری ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں دعا ہے کہ اللّٰہ پاک ہم سب کے اعتکاف قبول فرمائیں اور مجھ ناچیز کی اس ادنی سی کاوش کو بھی شرفِ قبولیت بخشے۔
وما علینا الاالبلاغ المبین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply