انسانی ذہن جب اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے۔ سوچ بلند تر ہوتی ہے۔ ذہن میں تحقیق و تخلیق کی آمادگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ترتیب و نفاست نمو پا جاتی ہے۔ ذہن ادب کے قرینے جانچ لیتا ہے۔ تجسس گہری جڑیں پکڑ لیتا ہے۔تو ہر ذہین خود کو تخیل کی اعلیٰ ترین نہج پہ لے جاتا ہے چاہے وہ ادیب، آرٹسٹ، سائنس دان، قانون دان، مفتی ہو یا لادین، غرض کسی بھی شعبہ سے ہر شخص اس پرواز تخّیل پہ جاتا ہے۔
اس مقام ِشعور پہ ایک عظیم ذہنی المیہ جنم لیتا ہے جسے نرگسیت ذہانت intellectual narcissism کہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو وہ اپنی تمکنت ذہن و خیال کو اس سطح پہ لے جاتے ہیں کہ کسی بھی اور عظیم یا عظیم ترین خیال،کیفیت یا صورت کو ماننے سے پہلے جابجا بہت سے شکوک و شبہات سے گزرتے ہیں۔ اس ذہنی المیے کا وہ نامور لوگ جو ادب، علمیت، سائنس و فلسفہ میں بڑے مقام پہ فائز ہوئے، بھی شکار ہوئے۔
انہوں نے بھی Intellectual narcissism نرگسیت ذہانت کے زیر اثر کہیں خدا کا انکار کیا تو کہیں تذبذب کا شکار ہوئے۔ کہیں مذہب کو جرم گردانا تو کہیں بلند تر مقام کی ہستیوں کا انکار کیا۔کہیں تضحیک کی، کہیں خود کو مرکز عقلیت و علمیت جان کر بہت سی غیر معمولی و غیر معقول توضیحات بول دیں کہ معمولی فہم و فراست پہ ایستادہ عام ان کی عقلی اپچ پہ سوال کرتے بنے۔ ایسے بہت سے دلیل کو ماننے والے بھی عقل کی دلیل کے سامنے مارے گئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں