جی کا جانا ٹھہر گیا۔۔چوہدری عامر عباس

گزشتہ رات عمران خان کے خطاب کا کچھ حصہ سنا، ایک ہفتہ پہلے کے خطاب اور حالیہ خطاب کا موازنہ کر لیجئے  ایک ہفتہ پہلے خان صاحب بہت پُر امید نظر آ رہے تھے کہ وہ اپوزیشن اور عوام کو تحریک عدم اعتماد میں سرپرائز دیں گے کیونکہ انکے پاس عددی اکثریت پوری ہے، انکی للکار میں جان تھی، اُس وقت وہ اپوزیشن کو چیلنج دے رہے تھے لیکن رات کے خطاب میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، ان کی باتوں سے واضح لگ رہا تھا کہ وہ حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں آنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن قبل از وقت شکست تسلیم کرنے کے بجائے آخری بال تک کھیلنا چاہتے ہیںِ یوں سمجھیں کہ آخری اوور کی آخری بال پر انھیں پندرہ رنز درکار ہیں۔

میں عمران خان کو داد دیتا ہوں کہ عمران خان عملی طور پر امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کیلئے واقعی سنجیدہ ہیں،وہ امریکہ کو للکار رہے ہیں مگر معذرت کیساتھ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عمران خان صاحب کے للکارنے کا طریقہ کار غلط ہے۔ آپ ایک کمزور معیشت ہیں۔ آپکا ملک قرضوں پر چل رہا ہے جو بہت حد تک امریکہ کے مرہون منت ہے،پہلے بھی آپ نے آئی ایم ایف سمیت بہت سے اداروں کا کھربوں ڈالرز کا قرض دینا ہے مزید پتہ نہیں کتنا عرصہ قرضہ لیتے رہنا ہے. ابھی آپ اس مقام پر نہیں پہنچے کہ آپ یوں ہر فورم پر کسی بھی ایسے ملک کیخلاف باتیں کرتے پھریں۔

اب میرے کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر آپ مقروض ہیں تو اپنی سالمیت، مطلق العنانیت اور خودداری کو بالائے طاق رکھ کر امریکہ کے آگے لیٹ ہی جائیں، بھئی ڈومور کے بجائے نومور ضرور کہیں مگر نو مور کہنے کے دیگر بہت سے طریقے ہیں آپ زبان و بیان کے بجائے عملی طور پر بھی پس پردہ رہ کر سفارتی سطح پر اپنی سٹریٹجی سے مختلف اوقات میں نو مور کے واضح پیغامات دے سکتے ہیں سفارتی آداب میں یہ طریقہ سب سے زیادہ سود مند ہوتا ہے. دنیا کے دیگر کامیاب ممالک اسی سفارتی سٹریٹجی کے تحت کام کرتے اور نکلواتے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات میں ہم نے پڑھا، دیکھا اور سنا کہ بہترین سفارت کاری ایک تالاب کے اندر تیرتی ہوئی بطخ کی مانند ہوتی ہے، آپ کو تالاب کے پانی کے اوپر نظر آ رہا ہوتا ہے کہ بطخ بہت تیزی سے تیر رہی ہے مگر پانی کے نیچے نظر نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ بطخ کس سرعت سے پانی کے اندر اپنے پاؤں چلا رہی ہے جن کے دم پر وہ تیرتی ہے. بہترین سفارت کاری میں بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ پانی کے نیچے یعنی بیک ڈور پر کیا کچھ چل رہا ہے. صرف آپکے عملی اقدامات سب کو نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال اب تک کا تجزیہ تو یہی ہے کہ موجودہ حکومت عددی اکثریت کھو چکی ہے اور اب تو کسی چمتکار کی بھی امید باقی نہیں رہی ہے۔
جی کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا یا شام گیا!

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply