• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط2

موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط2

یہ بھی پڑھیں :موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط1

جب بھی کوئی تحریک چلتی ہے تومحرک کی شخصیت بھی زیر بحث آتی ہے۔ اس پر کیچڑ بھی اُچھالا جاتا ہے۔ کردارکشی اورمخالفانہ پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔ اسے کسی کا ایجنٹ بھی ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی اصلاح کیلئے اٹھا ہےتواسے نشانے پر ضرورلیا گیا ہے۔ اگر کسی جرنیل نے اصلاح چاہی تو جرنیلوں کی کرپشن اورنالائقی کے قصے چلائے گئے۔ اگرنواز شریف نے شریعت بل لانے کی کوشش کی تو کہا گیا امیرالمومنین بننے کی خواہش ہے۔ ایسی مہمات کو بیانیہ دینے والا وہی پوشیدہ مگر طاقت کے ہرمرکزمیں موجود گروہ ہوتا ہے۔ البتہ اس جام کو گردش دینے والے مظلوم خود ہی ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہوتا ہے جو کسی تحریک کے پس پردہ محرکات کو ظاہر کرتا ہے۔ مولانا کی موجودہ تحریک کس مقصد کے تحت اٹھائی گئی ہے، اسکی اصل حقیقت تومستقبل ہی آشکارا کرے گا۔ مگراس تحریک کے کیا ممکنہ مقاصد ہوسکتے ہیں؟ یہ جائزہ ابھی بھی لیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے لیے پاکستان کے اندرونی اور گردوپیش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا ہوگا۔

اس پر تو کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان داخلی مسائل کے حل میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کے سلیکٹرزنہ صرف مایوس ہوئے ہیں بلکہ ان کے بعض بلنڈرزپربھنائے ہوئے بھی ہیں۔ سعودی فرمانرواؤں کی ناراضگی کے چرچے بھی ہیں۔ بیرونی مسائل میں افغانستان کی بدلتی صورتحال کوپہلےدیکھ لیتے ہیں۔ وہاں سے امریکہ آبروکا بھرم رکھتے ہوئے نکلنا چاہتا ہے۔ بلکہ اب تو کہا جارہا ہے کہ بنا معاہدے کے ہی چل دیا ہے۔ ظاہر ہےامریکہ کے جانے کےبعد نہ صرف منظر نامہ بدلے گا، بلکہ اس کے کچھ تقاضے بھی اُبھر کر سامنے آئیں گے، جن سے نبرد آزما ہونا ہو گا۔ اسی طرح عالم عرب میں وقوع پذیرواقعات بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن سب سے خطرناک صورتحال ہمارے مشرق میں پروان چڑھ رہی ہے۔ فی الحال کشمیرایشونظرآتا ہے، مگر یہ ایک انتہائی خطرناک عظیم منصوبے کا آغاز ہے۔ خدانخواستہ یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان کا نشان باقی نہیں بچے گا۔

اس منصوبے کا مختصر ذکر کرتا چلوں۔ ۔پہلے مرحلے میں دونوں طرف کے کشمیر کوملا کر خود مختارکشمیربنے، اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان اورمشرقی پنجاب میں آزادی کی تحریکیں چلنا اورایک آدھ سال بعد دونوں جگہوں کا آزاد ہو کرخود مختارکشمیر کا حصہ بن جانا۔ اس دوران ہمارے والے پنجاب میں بعض دانشوروں کے ذریعے رنجیت سنگھ کو پنجاب کا ہیرواور افغانیوں کو ڈاکو ثابت کرنے کی مہم چلانا۔ کرتار پورہ بارڈرکی آمدورفت کے ذریعے سکھوں کے مقدسات کو انکے حوالے کرنے کی مہم چلانا۔ یہ بتانا کہ ہری پورتوتھا ہی مہاراجہ ہری سنگھ کا اورمان سنگھ کا سہرہ مانسہرہ ہے۔ یہ اس منصوبے کے خط و خال ہیں۔ عالمی صیہونیت اس منصوبے کو قادیانیت کے ذریعے آگے بڑھا رہی ہے۔ دونوں پنجاب،دونوں کشمیراورگلگت بلتستان پرمشتمل توحید پسند مگرصوفی مزاج مسلمان،توحید پسند گرونانک کےماننے والے سکھ اوردجالِ مشرق کے ماننے والے قادیانیوں کی مشترکہ ریاست وجود میں لائی جائے۔ یہ ریاست وحدت اَدیان کے منشورپراستوارکی جائے تاکہ بنیاد پرستی کا توڑ ہوسکےاورساتھ ساتھ صیہونی مقاصد کی تکمیل میں مدد گارہو، تاکہ مشرق سے عربوں کو مدد نہ مل سکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھرپاکستان کہاں ہوگا۔ ایٹمی اسلحہ “محفوظ” سے “محفوظ ترین”ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ بنیاد پرست اورراسخ العقیدہ مسلمانوں کا سپین والا حشر کیا جائے گا۔ اوربالآخرزندہ رہنے کےلئے قادیانی دجال کو سچا ماننا پڑے گا۔

در حقیقت یہی وہ گروہ ہےجو پاکستان کے مسائل کی وجہ ہے۔ جو کہیں لبرل بن کر،کہیں قوم پرست بن کر،کہیں محب وطن بن کر اور کہیں مولوی بن کر اپنا منصوبہ آگے بڑھاتا رہا ہے۔اس پورے منظرکوسامنے رکھ کرمولانا کی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تحریک کیا رُخ اختیارکرسکتی ہے؟ یہ ان منصوبوں میں سے کس میں فِٹ ہو سکتی ہے؟ کس کا توڑ کر سکتی ہے؟ کیا پاکستان کے استحکام میں کوئی کردارادا کرسکتی ہے؟ یا افغانستان، پاکستان، کشمیراوردونوں پنجابوں پر مشتمل عظیم ترپاکستان کی راہ ہموارکرسکتی ہے؟

ایک امکان یہ سامنے آ رہا ہے کہ مقتدر قوتیں عمران خان کی جگہ مولانا کولانا چاہتی ہیں۔ اس صورت میں چہرہ بدلنے کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اگر یہی محرک ہوا تودھرنا بہت جلد اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نہ کوئی بڑا ٹکراؤہوگا اورنہ میلہ سجے گا۔ وکلاء تحریک کاہی ری پلے ہو گا اورقوم کودستار بردارکپتان مل جائے گا۔ مگریہ مولانا اورملک کےلئے بڑے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ پاکستان کا مذکورہ بالا گروہ انڈیا اورعالمی طاقتوں سےمل کر پروپیگنڈا کرے گا کہ پاکستان اورافغانستان میں طالبان آگئے ہیں۔ مالیاتی ادارے شکنجہ کسیں گے۔ ایف اے ٹی ایف والا حربہ علیحدہ آزمایا جائے گا۔ نتیجتاً معیشت میں مزید ابتری آئے گی۔مولانا، عمران خان سے بھی کم وقت میں ناکامی سے دوچار ہوجائیں گے۔ دین الگ سے بدنام ہو گا۔ دینداروں کےلئے مشکلات بڑھیں گی۔ قادیانیت کواپنا ایجنڈہ آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ مولانا کا اپنی سیاسی زندگی کا سب سے کمزور فیصلہ ہو گا جوان کی سیاست کےاختتام کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اسی طرح اگر یہ تحریک بغیر کسی کامیابی کے ناکام بنا دی جاتی ہے تو بھی درج بالا نتائج کامرتب ہونا یقینی ہو گا۔

ایک امکان یہ ہے کہ عالمی مقتدرہ نے پاکستانی مقتدرہ میں بنیادی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یعنی پچھلے بیس سالوں کواگر پرویز مشرف کے مکتبِ فکر کا دور سمجھا جائے تو آئندہ دوبارہ   ضیاء الحق کے مکتب فکر کو آگےلایا جائے۔ اگر ایسا ہوا تونظام تو جوں کا توں رہے گا۔ بس اتنا فرق پڑے گا کہ سیکولر لبرل کی جگہ سیکولرمولوی (داڑھی والا یا بغیر داڑھی) آ جائیگا۔ یہ تبدیلی افغان طالبان کوبھی فریب میں مبتلا کر سکے گی۔ پاکستانی اسلام پسندوں کےذریعےانھیں “انتہا پسندی”سے روکے رکھنا ممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں وقتی طورپر معاشی حالات سنبھلنے کے بھی امکانات ہوں گے۔ یہ کھیر مولانا پکائیں گے ضرورمگر نوش نہیں کر سکیں گے۔ اس صورت میں یا توراجہ ظفر الحق جیسا کوئی اسلام پسند آئے گا یا پھر تھانوی گروپ سے کوئی بے ضرر بندہ لایا جائیگا۔ لیکن دوررس نتائج اسکے بھی وہی ہوں گے جواوپر مذکور امکان کے تھے۔ اس دورمیں اندرونی طور پر فوج اوردینداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے گا اوربیرونی طور پراسلامی انتہا پسندی کا واویلا پہلے دھیمے سروں میں ہوگا۔ رفتہ رفتہ اسکی لَے بلند ہوتی جائے گی اوربالآخر پوری شدت سےدہشت گردی کا راگ الاپا جائے گا۔

اب سب سے موہوم اورتقریباً ناممکن امکان کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ مولانا کسی کےاشارے کی بجائے اپنےاحساس فرض،تلافی مافات اورامت مسلمہ پر عائد ذمہ داری کی ادائیگی کےلئے متحرک ہوئے ہوں۔ یہ ذہن میں رہے کہ جمعیت علماء اسلام، تھانوی گروپ کی طرح محض روایت پرستوں کی اجتماعیت نہیں ہے بلکہ شاہ ولی اللہ کی فکرکی وراثت کی دعویداربھی ہے۔ اس کے جھنڈے پرشاہ ولی اللہ رح کا مشہورقول “فک کل نظام”بھی لکھا ہے۔
یعنی باطل کا ہرنظام توڑ پھوڑ دو۔یہ عبیداللہ سندھی کے نظریات کی بھی امین سمجھی جاتی ہے۔ وہی مولانا سندھی جن سےاکثر تھانوی حلقےمتوحش رہتے ہیں۔ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہی تھے جنھوں نے مولانا سندھی کےلئے نرم گوشے کا اظہار کیا تھا۔ مولانا سندھی کے معاشی نظریات میں انقلابی رنگ بہت گہراہے۔ اسی وجہ سے جب دائیں اور بائیں بازوکی تقسیم وجود رکھتی تھی، تب جمعیت علمائے اسلام کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت کے طورپرجانا جاتا تھا۔اسی وجہ سے مقتدرہ کواس سے کھٹکا رہتا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالات کے جبر نے مولانا کو بھولی ہوئی منزل یاد کرا دی ہو۔ قدرت مسلمانان ہند پرمہربان ہو چکی ہو۔ اس لیےمولانا کا دل راتوں رات بدل کر انھیں نئی منزل کا راہی بنا دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ملک خدا داد کو دنیا کےلئے مینارہ نور بنانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ اس کام کےلئے جمعیت کوہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کےلئے منتخب کر لیا گیا ہو۔ آخر مقتدرہ کے اوپر کوئی مقتدرمطلق بھی تو ہے۔ اشارہ طاقتورحلقے ہی نہیں دیتے قادرمطلق کا اشارہ بھی تحریک دیتا ہے۔ وہ ہم پر مہرباں ہوچکا ہو۔اس نے ہمیں ایٹمی ٹیکنالوجی دے رکھی ہے، میزائل ٹیکنالوجی سے نوازا ہوا ہے۔ بہترین فوج ذہین ترین باصلاحیت قوم اورسب سے بڑھ کرعشقِ مصطفی ﷺکی قوت ہمیں عطا کر رکھی ہے۔ ہماری یہ صلاحتیں آخرکب بروئے کارآئیں گی۔ اب آسمان سے تو کسی نے نہیں اترنا۔ جس کی انگلیوں کےدرمیان میں تمام انسانوں کے دل ہیں اسی نے کسی کے دل کی دنیا میں تبدیلی لانی ہے، پھرادارے بدلیں گے، پھر قوم بدلے گی اور پھریہ قوم سارا جہاں بدل دے گی۔
ہمیں مولانا کی اس تحریک سے اصل دلچسپی اسی حوالے سے ہے۔
(جاری ہے)

Sent from my iPhone

Advertisements
julia rana solicitors

, or

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply